استاد رفیق بلوچ، معروف بینجو نواز، انتقال کر گئے

 


تُربت (بلوچستان ٹوڈے )اطلاعات کے مطابق، استاد رفیق بلوچ چند روز قبل ڈیرہ غازی خان میں ہونے والی بین‌الصوبائی ثقافتی ہم‌آہنگی کانفرنس میں ایک شاندار پرفارمنس کے بعد کوئٹہ واپس جا رہے تھے کہ لورالائی کے قریب ان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور وہ جانبر نہ ہو سکے۔

استاد رفیق بلوچ نے بلوچی ساز "بینجو" کو نئی شناخت دی اور اسے بلوچ ثقافت اور موسیقی کی علامت بنا دیا۔

ان کا فن نہ صرف بلوچستان بلکہ دنیا بھر میں بلوچ موسیقی کی پہچان بن گیا۔


ان کی دھنیں اور نغمے بلوچ قوم کی روح، درد اور خوبصورتی کی عکاسی کرتے تھے۔

استاد رفیق بلوچ کا کردار بلوچی ثقافت، موسیقی اور زبان کے فروغ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

بلوچ ادیب مصنف عابد میر نے استاد بارے لکھا ہے ۔

ھاؤ اڑے زندگی!

غازی یونیورسٹی کے کنونشن کے لیے بلوچستان سے ایک تو ادیبوں کا وفد تھا، ایک فنکاروں کا وفد تھا جس میں بینجونواز استاد رفیق بلوچ بھی شامل تھے۔ میں ان سے کبھی نہیں ملا مگر بلوچستان میں میوزک کا ایسا کوئی دلدادہ شخص نہ ہو گا جو اُن کے سُروں سے آشنا نہ ہو۔ ہمارے ہاں بینجو بجانے والے چند فنکار ہی رہ گئے ہیں، رفیق بلوچ کا درجہ ان میں استاد کا رہا ہے۔

غازی یونیورسٹی کی شبِ ثقافت میں انھوں نے بینجو کے سُر چھیڑے تو نیند کے ہلکورے لیتا پنڈال جیسے جاگ پڑا۔ اسی دوچاپی کا وہ جادو چڑھا کہ نظامت کرنے والا نوشکی ہی کا جوان طارق بھی خود پہ قابو نہ رکھ سکا اور جھوم اٹھا، اور ایسا جھوما کہ پوری محفل کو گرما دیا۔

مگر کون جانتا تھا کہ استاد رفیق اُس رات اپنے فن کا آخری مظاہرہ کر رہا تھا۔ آخری بار اس کی انگلیاں بینجو کے ساز کو چھیڑ رہی تھی۔ آخری بار وہ اپنے فن کی داد پا رہا تھا۔ آخری بار فضا میں سُر بکھیر رہا تھا۔

اگلے روز وہ اپنے بیٹے اور ٹیم کے ساتھ واپس آ رہا تھا کہ راستے میں اسے دماغی فالج کا اٹیک ہوا۔ لورالائی سے کوئٹہ بمشکل پہنچایا گیا۔ جہاں چوبیس گھنٹے کی کشمکش کے بعد بالآخر اس نے آنکھیں موند لیں۔ 

غازی یونیورسٹی کے منتظمین میں سے کسی نے لکھا: "استاد رفیق بلوچ انتہائی غربت کے عالم میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ غیور اتنے تھے کہ ہمارے لاکھ اصرار کے باوجود اپنی جیب سے کھانا کھاتے رہے کہ میں نے جو پیسے طے کیے تھے، وہ میں لے چکا۔"

ھُدائے باھُوٹ استاد رفیق جان!!


Post a Comment

Previous Post Next Post