مستونگ ( نامہ نگار ) میں گل سیما، رہائشی مستونگ، آج آپ سب کے سامنے اپنی فریاد اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی کہانی لے کر حاضر ہوئی ہوں۔ میں گذشتہ ایک سال سے شہید غوث بخش میموریل اسپتال میں بطور اسٹاف نرس اپنی خدمات ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ انجام دے رہی ہوں۔ میرے کام کی کارکردگی ایمانداری اصولوں کے مطابق عوامی خدمت کے جذبے کے تحت رہی ہے۔ مگر بدقسمتی سے جب سے اسپتال کے موجودہ سی ای او نے چارج سنبھالا ہے ہسپتال کا ماحول ذاتیات، انتقامی کاروائیوں کا شکار بنا دیا گیا ہے۔سب سے پہلے، میری ساتھی صبیحہ مینگل، جو مستونگ سے تعلق رکھتی ہیں، کو بغیر کسی وجہ کے غلط الزامات کی بنیاد پر معطل کر دیا گیا۔ بعد میں حنان بلوچ جوتربت کے رہائشی ہیں انہیں بھی کسی قسم کی تحریری وارننگ یا شوکاز نوٹس کے بغیر محض ذاتی مخالفت کی بنیاد پر معطل کر دیا گیا۔
میرے خلاف بھی اسی سلسلے کو آگے بڑھایا گیا۔مورخہ 24 اکتوبر کو، میں اپنے مقررہ وقت 2:30 بجے ڈیوٹی کے لیے اسپتال پہنچی۔ 2:33 پر بائیو میٹرک حاضری لگانے کی کوشش کی، تو انچارچ نے انتہائی بدتمیزی اور توہین آمیز لہجے میں مجھے روکا اور کہا کہ "آپ کی حاضری نہیں لگ سکتی۔" میں حیران رہ گئی اور واپس گھر جانے کو ترجیح دی۔
لیکن اگلے ہی روز، یعنی 25 اکتوبر کو، مجھے اسپتال انتظامیہ کی جانب سے معطلی کا نوٹس موصول ہوا جس میں میرے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگایا گیا کہ میں نے بدتمیزی کی ہے۔۔۔۔یہ فیصلہ سراسر غلط، جانبدارانہ، اور ذاتیات پر مبنی ہے۔۔۔۔میری سروس کے دوران آج تک نہ مریضوں کی جانب سے، نہ عوام کی جانب سے، اور نہ ہی کسی ساتھی اسٹاف ممبر کی جانب سے کوئی شکایت سامنے آئی، جبکہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ اسپتال میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ مخصوص سٹاف ممبران کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے وہ نہ وقت پر آتے ہیں، نہ ہی اپنی ڈیوٹی پوری کرتے ہیں، اور نہ ہی کبھی انہیں کسی قسم کی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا۔۔
سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں؟
کیا بلوچستان کے عوام اور یہاں کی خواتین صرف اس لیے نشانہ بنتی جائیں گی کہ وہ عام لوگوں کی آواز بننے کی ہمت رکھتی ہیں؟
میں حکومت بلوچستان، محکمہ صحت، انسانی حقوق کمیشن، اور میڈیا سے اپیل کرتی ہوں کہ اس ناانصافی کی غیر جانبدارانہ انکوائری کی جائے۔۔۔۔اسپتال کو کسی کی ذاتی مفاد یا تعصب کا شکار نہ بنایا جائے۔۔۔۔ہم کسی رعایت کے طلبگار نہیں، مگر برابری، انصاف، اور عزت نفس کا حق ضرور مانگتے ہیں۔۔۔۔میں یہ آواز صرف اپنے لیے نہیں بلکہ ان تمام مظلوم ملازمین کے لیے اٹھا رہی ہوں جنہیں ذاتیات کی بنیاد پر دبایا جا رہا ہے۔۔
میں وزیر اعلیٰ بلوچستان، وزیر صحت چیف سیکرٹری بلوچستان ، ایم پی اے مستونگ نواب محمد اسلم خان رئیسانی اور ڈپٹی کمشنر مستونگ بہرام سلیم بلوچ سے اپیل کرتی ہوں کہ مجھے انصاف دیا جائے۔
