کوئٹہ ( بلوچستان ٹوڈے ) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں 32 افراد، جن میں متعدد بلوچ کارکن بھی شامل ہیں، کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 11-EE کے تحت “ممنوعہ افراد” کی فہرست میں شامل کرنے کے فیصلے کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر، بابو رام پنت نے کہا کہ جس من مانے اور غیر شفاف طریقے سے ان افراد، بشمول پُرامن بلوچ کارکنوں، کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، وہ انصاف کے تقاضوں، شخصی آزادی، رازداری اور نقل و حرکت کی آزادی پر حملہ ہے۔ انہیں فیصلے کو چیلنج کرنے کا بھی کوئی موقع نہیں دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل طویل عرصے سے پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے قانون پر خدشات کا اظہار کرتی آ رہی ہے، کیونکہ یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتا، ریاستی اداروں کو غیر معمولی اختیارات دیتا ہے اور ایسے افراد کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو محض اپنے بنیادی انسانی حقوق کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اس قانون کو منظم طور پر اختلافِ رائے دبانے اور تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
بابو رام پنت نے کہا کہ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ماورائے عدالت ہلاکتوں کی تشویشناک رپورٹس سامنے آ رہی ہیں۔ خاص طور پر ضلع خضدار کے علاقے زہری میں 25 ستمبر سے مکمل لاک ڈاؤن نافذ ہے، جہاں نقل و حرکت پر پابندی کے ساتھ ساتھ کئی ماہ سے انٹرنیٹ سروس بھی بند ہے، جو اظہارِ رائے کی آزادی کی صریح خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام کارکنوں کو اس فہرست اور اسی نوعیت کی دیگر فہرستوں، جیسے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) اور پاسپورٹ کنٹرول لسٹ سے فوری طور پر خارج کرے، کیونکہ یہ فہرستیں بھی شہری آزادیوں پر غیر منصفانہ پابندیاں عائد کرتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قانونی طریقہ کار کی پاسداری کرے، اور متاثرہ افراد کو آزاد و غیر جانبدار عدالت میں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کرے۔ مزید برآں، حکومت کو بلوچستان کے علاقے زہری میں فوجی آپریشن کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی فوری، شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کرنی چاہئیں، انٹرنیٹ کی بندش ختم کرنی چاہیے، اور تمام سیکیورٹی اداروں کو بین الاقوامی قانون کی مکمل پاسداری کرنی چاہیے۔
خیال رہے کہ بلوچستان حکومت نے 2 اور 16 اکتوبر کو جاری کردہ نوٹیفکیشنز کے ذریعے ضلع خضدار، کیچ اور چاغی کے 32 افراد کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے چوتھے شیڈول کے تحت “ممنوعہ افراد” قرار دیا ہے۔ ان میں خواتین کارکنان ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، سمی دین بلوچ، ناز گل، اور شلی شامل ہیں۔
اس اقدام کے تحت ان افراد پر سخت نگرانی عائد کر دی گئی ہے، ان کی نقل و حرکت پر پابندی ہے، اور انہیں اپنے علاقے سے باہر جانے کے لیے مقامی پولیس کی پیشگی اجازت لینا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ، حکام کو ان کے یا ان کے خاندان کے مالی اثاثے منجمد کرنے کا بھی اختیار دیا گیا ہے۔
بیاں میں کہا گیا ہے کہ زہری ضلع خضدار میں جاری فوجی کارروائیوں کے دوران متعدد ہلاکتوں کی اطلاعات ملی ہیں، جن میں بچوں کی ہلاکتیں بھی شامل ہیں