بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں کچھ لمحات ایسے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ داستانی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ انہی نایاب لمحات میں سے ایک کوہِ چلتن ہزارگنجی کی وہ تاریخی نشست ہے جس کی میزبانی بلوچستان کے دو عظیم رہنماؤں نے کی: بابو عبدالکریم شورش اور شہزادہ عبدالکریم خان بلوچ۔
یہ وہ دور تھا جب بلوچستان اپنی سیاسی شناخت اور قومی شعور کی جستجو میں مصروف تھا۔ ان دنوں سیاسی تحریکوں، قوم پرستی اور قومی وحدت کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں۔ ایسے میں یہ دعوت محض ایک سماجی یا دوستانہ نشست نہیں تھی، بلکہ ایک ایسا اجتماع تھا جس نے آنے والے وقتوں کی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے۔
اس تاریخی موقع پر کئی اہم سیاسی شخصیات موجود تھیں۔ ان میں سب سے نمایاں نام سینیٹر قسور گردیزی کا تھا جو اپنے وقت کے ایک سرگرم اور دوراندیش سیاست دان سمجھے جاتے تھے۔ اس دعوت میں شریک دیگر معزز مہمان بھی بلوچستان کی قومی و عوامی سیاست کے مستقبل پر گفتگو کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
بابو عبدالکریم شورش، جنہیں بجا طور پر ابوالتحریکات کہا جاتا ہے، بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کی علامت تھے۔ وہ نہ صرف عملی سیاست میں بلکہ فکری و صحافتی میدان میں بھی رہنمائی کے مینار تھے۔ اس نشست میں وہ اپنے ہاتھ میں دنیا کا پہلا بلوچی اخبار "نوکیں دور" اٹھائے ہوئے دوستوں سے تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ یہ منظر بلوچستان کی تاریخ کے اس باب کو نمایاں کرتا ہے جہاں صحافت اور سیاست دونوں کا سنگم ایک مقصد کی تکمیل کے لیے یکجا ہوا۔
شہزادہ عبدالکریم خان بلوچ کی شرکت اس محفل کو مزید تاریخی بناتی ہے۔ وہ قلات کے شاہی خاندان کے فرد ہونے کے باوجود عوامی جدوجہد اور قومی سیاست کے ہمنوا تھے۔ ان کی شخصیت بلوچستان کے اندرونی اور بیرونی سیاسی تعلقات میں ایک پُل کی حیثیت رکھتی تھی۔
اس نشست کی ایک تصویر آج بھی تاریخ کے اوراق کو زندہ کرتی ہے۔ تصویر میں بابو عبدالکریم شورش اپنے ہاتھ میں نوکیں دور اخبار تھامے دوستوں اور ساتھیوں سے پرجوش بات چیت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ منظر محض ایک تصویر نہیں، بلکہ بلوچستان کے سیاسی شعور، قومی وحدت اور فکری جدوجہد کی ایک جیتی جاگتی علامت ہے۔
کوہِ چلتن ہزارگنجی کی یہ دعوت اس بات کی علامت ہے کہ بلوچستان کی سیاست ہمیشہ مکالمے، اتحاد اور فکری تبادلے پر استوار رہی ہے۔ بابو عبدالکریم شورش اور شہزادہ عبدالکریم خان بلوچ جیسے رہنماؤں نے اپنے وقت کے دانشوروں اور سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے آنے والے وقتوں کے لیے ایک مثال قائم کی۔
یہ لمحہ اور اس کی یادگار تصویر ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ قومی سیاست محض اقتدار کی جنگ نہیں، بلکہ ایک ایسا سفر ہے جس میں نظریہ، قربانی، اور عوامی شعور بنیادی ستون ہوتے ہیں۔