شہید عبدالسلام ایڈووکیٹ! تحریر لطیف بلوچ



شہید عبدالسلام ایڈووکیٹ کی شہادت کو 14 سال مکمل ہو چکے ہیں، لیکن ان کی یاد اور نظریات آج بھی ہمارے افکار میں زندہ ہیں۔ وہ بلوچستان کے مظلوموں کی آواز اور ان کے حقوق کے وکیل تھے، جو ایک فلسفیانہ بصیرت کے ساتھ انسانی اقدار کی وکالت کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں وہ سیاسی عنصر موجود تھے جو ایک حقیقی رہنما کی شناخت بناتے ہیں: حکمت، شجاعت، ہمدردی، اور علم کی روشنی۔
28 ستمبر 2011 کا دن ایک سانحہ کی حیثیت سے ہمارے دلوں میں نقش ہے، جب عبدالسلام ایڈووکیٹ کو اپنی معصوم بیٹی، اسمإء سلام، کے ساتھ شہید کیا گیا۔ یہ واقعہ انسانی وجود کی ناپائیداری کو اجاگر کرتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حق اور انصاف کی تلاش میں انسان کو اپنی جان کی قربانی دینا پڑتا ہے۔ اسمإء کا نام عبدالسلام کی زندگی میں ایک منفرد اہمیت رکھتا تھا؛ وہ ان کی محبت اور امید کی علامت تھیں۔ اس واقعے نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کس طرح ایک باپ کی محبت اور ایک بیٹی کی معصومیت، ایک ظالم نظام کے سامنے چیلنج بن سکتی ہے۔
عبدالسلام ایڈووکیٹ کی سیاسی اور سماجی خدمات کی تاریخ قابلِ یادگار ہے۔ وہ نہ صرف ایک باصلاحیت وکیل تھے، بلکہ ایک معلم بھی، جنہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ نوجوان سیاسی کارکنوں کی تربیت میں صرف کیا۔ ان کی ہمدردی اور حکمت عملی نے انہیں ایک مثالی شخصیت بنا دیا، جو ہمیشہ علم و شعور کی روشنی پھیلانے میں یقین رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ سچائی کی تلاش میں علم اور  شعور کی قوت ہی سب سے اہم ہے۔
ان کی زندگی کا فلسفہ یہ تھا کہ حق کی جستجو میں حوصلہ اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ عبدالسلام اور اسمإء کی شہادت نے ہمیں یہ سکھایا کہ قومی و انسانی حقوق کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ہمیں ان کی شجاعت سے سبق سیکھ کر اپنے قومی حقوق کے دفاع میں ڈٹ جانا چاہیے، چاہے یہ جدوجہد کتنی ہی صعوبتوں سے بھری کیوں نہ ہو۔
آج جب ہم شہید عبدالسلام ایڈووکیٹ اور ان کی معصوم بیٹی اسمإء کی یاد مناتے ہیں، تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی زندگی کی گہرائی میں چھپے اسباق ہمیں ایک نئی سمت کی جانب گامزن کرتے ہیں۔ ہمیں ان کے نظریات کو اپنے عمل میں شامل کر کے بلوچستان کے مظلوموں کے قومی خود مختاری و حقوق کی آواز بننا ہوگا۔ ان کی یاد، ان کی قربانی، اور ان کے فلسفۂ زندگی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے، اور ہمیں اس بات کا عزم کرنا ہوگا کہ ہم ان کے نشانِ قدم پر چلتے رہیں گے، حق کی روشنی پھیلانے کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post