کوئٹہ ( نامہ نگار ،مانیٹرنگ ڈیسک، ویب ڈیسک ) انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماؤں کے ریمانڈ میں چھٹی بار توسیع کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے چار ساتھیوں کو مزید 15 روز کے لیے پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔
جمعرات کے روز پولیس نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی اور بیبگر بلوچ کو سخت سیکیورٹی میں عدالت میں پیش کیا، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ریمانڈ میں توسیع کا فیصلہ سنایا۔
یہ حکم اس سے قبل دی گئی پانچ روزہ ریمانڈ کی مدت مکمل ہونے پر جاری کیا گیا، یاد رہے کہ گزشتہ پیشی ہفتہ وار تعطیل کے دن ہوئی تھی جس میں عدالت نے بی وائی سی کی قیادت کو پانچ روز کے لیے پولیس کے حوالے کیا تھا۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ان کے خلاف مقدمات اور عدالتی کارروائی پہلے سے طے شدہ اسکرپٹ کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا ہمارے خلاف فیصلے پہلے سے لکھے جاتے ہیں عدالتوں کو دباؤ میں لاکر ہمارے مقدمات چلائے جاتے ہیں ایسی عدالتیں آزاد نہیں ہوتیں جہاں حکومتی ادارے فیصلے پہلے ہی طے کر دیتے ہیں ہمیں انصاف کی کوئی توقع نہیں لیکن ہم اپنی جدوجہد کو ہر حال میں جاری رکھیں گے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے مزید کہا کہ ریاست ان کے پرامن سیاسی اور جمہوری کردار کو دبانے کے لیے مقدمات اور جھوٹے الزامات کا سہارا لے رہی ہے لیکن ان کا مقصد عوامی آواز کو خاموش کرنا ہے جو ممکن نہیں ہوگا۔
بی وائی سی کے وکلا نے بھی فیصلے پر سخت ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکلین کو غیر قانونی طور پر طویل ریمانڈ پر رکھا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا یہ ریمانڈ صرف وقت ضائع کرنے اور ان رہنماؤں کو ذہنی و جسمانی دباؤ میں رکھنے کا ہتھکنڈہ ہے کسی بھی قانونی شق کے تحت مسلسل ریمانڈ کی اس قدر توسیع جائز نہیں عدالتوں کو چاہیے کہ وہ پولیس کی مرضی کے بجائے قانون کے مطابق فیصلے دیں۔
وکلا نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان کے مؤکلین کے خلاف کوئی واضح شواہد عدالت میں پیش نہیں کیے جارہے ہیں اس کے باوجود بار بار ریمانڈ میں توسیع دی جا رہی ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کریں گے تاکہ انصاف حاصل کیا جا سکے۔
اس موقعہ پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے آج کی عدالتی پیشی کے دوران بلوچ خاتون ماہ جبین بلوچ کی جبری گمشدگی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی جبر اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں خواتین کو بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے عدالت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا یہاں عدالتیں ہوں یا پارلیمنٹ، کوئی بھی بااختیار نہیں فیصلے کہیں اور سے آتے ہیں اور ادارے صرف دکھاوے کے لیے موجود ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیاں صرف ایک کیس یا ایک فرد تک محدود نہیں ہیں ایک طالب علم جو معذوری کا شکار ہے اسے تقریباً تین ماہ سے جبری حراست میں رکھا گیا ہے لیکن عدالتیں حتیٰ کہ اسے پیش کرنے کا اختیار بھی استعمال نہیں کر رہیں۔
انہوں نے کہا اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں اصل میں عسکری حکومت قائم ہے، نہ کوئی عوامی حکومت موجود ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے سپریم کورٹ اور دیگر عدلیہ بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے مطابق بلوچستان سے خواتین کی جبری گمشدگی کے واقعات طویل ہیں پہلے بلوچستان کے دیہاتوں سے خواتین کو جبری لاپتہ کیا جاتا تھا اب شہروں سے طالبات کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا بنیادی مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں، جو ان کا پیدائشی اور آئینی حق ہے ہم ان حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور باشعور طبقات سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ جبری گمشدگی جیسے سنگین جرم کے خلاف آواز بلند کریں اور ماہ جبین سمیت بلوچستان میں جبری گمشدگی کے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا کیس، چیف جسٹس کا وکیل ایمان مزاری کے خلاف توہین عدالت کاروائی کی دھمکی۔
ادھر آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ سیاسی رہنما اور بی وائی سی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے کیس کی سماعت کے دوران غیر معمولی صورتحال پیدا ہوگئی جب جج نے ایمان مزاری کو دھمکانے کی کوشش کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور وکیلِ مدعا علیہ، معروف انسانی حقوق کی کارکن ایڈوکیٹ ایمان مزاری کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔
عدالتی کاروائی کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سرفراز ڈوگر نے ماہ رنگ بلوچ کے وکیل ایمان مزاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اب اگر اس کیس میں کوئی آرڈر پاس کروں گا تو ایمان مزاری نیچے جا کر پروگرام کر دیں گی کہ ڈکٹیٹر بیٹھا ہے۔
جج کے ریمارکس پر ایمان مزاری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو قانون یا آئین کے خلاف ہو۔
ان کا کہنا تھا میں یہاں ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ اپنے مؤکل کی نمائندگی کے لیے بریف لیکر آئی ہوں اگر آپ کو مجھ سے ذاتی اختلاف ہے تو اس کا اثر میرے کلائنٹ کے کیس پر نہیں ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایمان مزاری نے جج کو “ڈکٹیٹر” کہا ہے اور وارننگ دی کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جا سکتی ہے، جس پر ایمان مزاری نے مؤقف اختیار کیا کہ انہیں آئین نے آزادی اظہار رائے دی ہے اور اگر عدالت چاہے تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کر سکتی ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے دھمکی دیتے ہوئے ایمان مزاری کے شوہر اور وکیل ہادی علی چھٹہ سے کہا ایمان مزاری کو سمجھائیں کسی دن میں نے پکڑ لینا ہے، جس پر ایمان مزاری نے جواب دیا اگر عدالت اس حد تک وکلا کو دھمکیاں دینا شروع کر دے تو بہتر ہے توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
بعد ازاں ماہ رنگ بلوچ کیس سماعت میں ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے انہیں پہلے کابینہ کی ذیلی کمیٹی میں رجوع کرنا چاہیے عدالت نے کیس سے متعلق رپورٹ وکلا کو فراہم کرنے کی ہدایت کی اور سماعت ملتوی کردی۔
عدالتی کاروائی کے بعد ایمان مزاری نے کہا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ میں ان کی عدالت میں ایک کارکن کی حیثیت سے موجود نہیں ہوتی بلکہ ایک وکیل کے طور پر اپنے مؤکل کا مقدمہ پیش کرتی ہوں اور اپنے پیشہ ورانہ آداب کے مطابق اپنا کردار ادا کرتی ہوں۔
عدالت کو بھی اسی پیشہ ورانہ آداب کے مطابق عمل کرنا چاہیے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کیس کسی جج کے ذاتی اختلاف یا آزادی اظہارِ رائے پر ناراضی کی وجہ سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
مزید برآں وکیل ایمان مزاری کے مطابق ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا ای سی ایل کیس آئندہ سماعت کے لیے 16 ستمبر مقرر کیا گیا ہے۔