ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) وفد نے گذشتہ روزجمعرات کو کراچی میں زاہد بلوچ اور سرفراز بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد خاندانوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا۔
یہ احتجاجی دھرناگذشتہ 25 روز سے جاری ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے چیئرمین اسد اقبال بٹ نے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا اور مظاہرین سے اظہارِ یکجہتی کیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیاں نہ صرف غیر قانونی عمل ہیں بلکہ آئینِ پاکستان اور بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ “ریاست اگر اپنے ہی شہریوں کو غیر قانونی طور پر غائب کرے گی تو یہ انصاف کا قتل اور پورے معاشرے کو خوف و عدم تحفظ میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔
کسی بھی شہری پر الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے اور شفاف ٹرائل دیا جائے، یہی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
“انہوں نے مزید کہا کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ نہ صرف متاثرہ خاندانوں بلکہ پورے معاشرے کو ذہنی اذیت سے دوچار کرتا ہے۔
یہ عمل شہریوں کے ریاست پر اعتماد کو کمزور کر رہا ہے اور قانون کی بالادستی کے تصور کو مجروح کرتا ہے۔
اس موقع پر ایچ آر سی پی سندھ چیپٹر کے وائس چیئرمین قاضی خضر ، کراچی یونین ?ف جرنلسٹس کے صدر طاہر حسن خان، ناصر منصور، زہرہ خان، حبیب جنیدی، خالق جو نیجو، سہیل سانگی، پروفیسر توصیف احمد خان، سعید بلوچ، کامریڈ واحد بلوچ اور دیگر مزدور رہنماؤں نے بھی احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا اور مظاہرین کے ساتھ بیٹھ کر ان کا دکھ درد بانٹا۔
رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آئین کے تحت شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے پابند ہیں، لہٰذا وہ اس غیر قانونی عمل کو فوری طور پر بند کریں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تمام نوجوانوں کو بازیاب کیا جائے اور اگر ان پر کوئی الزام ہے
تو انہیں عدالت میں پیش کر کے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ رہنماؤں نے کہا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سول سوسائٹی اور میڈیا کو بھی آگے بڑھ کر مظلوم خاندانوں کی آواز بننا ہوگا۔احتجاجی کیمپ میں شریک خاندانوں نے ایک بار پھر دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی تک یہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ان کے مطابق یہ دھرنا انصاف اور آئین کی بحالی کے لیے ہے، اور اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک تمام لاپتہ افراد کو قانونی دائرے میں لایا نہیں جاتا ۔