تم آسمان کی بلندی سے جلد لوٹ آنا ہمیں زمین و زمین زادوں پہ بات کرنی ہے۔
پوری تاریخ میں مڈل کلاس کی سیاسی روح کو گر ایک جملے میں سمیٹا جاۓ تو یقینا کارل مارکس سے منسوب وہ تاریخی جملہ ہوگا جو اس طبقے کی سیاسی نفسیات کی نہایت گہری ، بصیرت افروز تشریح کرتا ہے ، “مڈل کلاس کے پاؤں کیچڑ میں جبکہ نظریں آسمان پہ ہوتی ہیں “ یہ جملہ نہ صرف مڈل کلاس کی سیاسی رویے کی بنیادیں آشکار کرتی ہیں بلکہ ان کے نفسیاتی امراض ، ذہنی و فکری ناپختگی کو بے نقاب کرتا ہے ، جب یہ طبقہ سیاست کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو اس میں پہلے سے ایک احساس کمتری موجود ہوتا ہے ،یہ احساس فقط ماضی کا شاخسانہ نہیں بلکہ مستقبل کے حوالے سے بے صبری ، جلد بازی کی بنیاد بھی بن جاتی ہے اسی بے صبری و جلدبازی کے اضطراب کے تحت یہ طبقہ جلد از جلد سیاسی بلندیوں پہ پہنچنے کی کوشش میں ایسی سیاسی حماقتیں کر بیٹھتا ہے جو تحریکوں گونقصان پہنچاتی ہیں ،ان سیاسی نا عاقبت اندیش فیصلوں کی بدولت کسی بھی طرح کیچڑ سے نکل کر آسمان پہ جلد از جلد پہنچ جانے کی آرزو انہیں زمینی حقائق سے کاٹ کر خلاؤں میں پہنچاتی ہے ،جہاں ان کا پاؤں زمین پہ نہیں ٹکتا۔
بلوچ قومی تحریک میں پارلیمانی سیاست کے میدان میں کردار واضح ہے کہ وہ مڈل کلاس سے ارب پتی مڈل کلاس کیسے بن گئے ، تقسیم در تقسیم ، جوڑ توڑ میں مہارت ، اقرباء پروری ، سازشیں اور قومی بیانیے میں کنفیوژن پھیلانا پارلیمانی مڈل کلاس سیاست دانوں کا آج تک وطیرہ رہا ہے لیکن دوسری طرف آذادی پسندوں کے سامنے گر آہینہ رکھا جاۓ تو کیا یہی نفسیات ہو بہو یہاں جلوہ گر نہیں ہے ؟ کیا وہ تاریخ سے مبرا سیاسی کردار ہیں جن پہ تاریخ سوال نہیں اٹھا سکتا؟ کیا مارکس کا یہ لافانی جملہ بلوچ قومی تحریک کے دونوں محاذ پہ بعینیہ صادق نہیں آتا ؟ پارلیمانی میدان میں یہ طبقہ (مڈل کلاس )ریاستی کاسہ لیسی میں ہر حد پار کر گئے ، اور ریاستی خوشنودی کی تلاش میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے لیکن دوسری طرف آزادی پسند آسمان پہ جلد از جلد پہنچنے کے لیے سوقدم آگے بڑھنے کے لیے بے وقت چھلانکیں مارتے رہے ، یہ چھلانکیں انہیں بدحواس ، بے حس کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیموں کوبھی دولخت کرگئی ، افسوس صد افسوس ان کی بے حسی پہ کہ اپنی بلندی کے لیے یا کسی کی برابری کے لیے اپنے آپ کو اس قدر گراۓ کہ شہدا کے خون کا اور زمین کا لاج بھی نہ رکھ سکیں ،
ایک تیری برابری کے لیے
خود کو کتنا گرا چکا ہوں میں
دراصل فکر ، نظریہ ، کتاب ہی وہ ستون ہے جو کسی کو بھی زمین سے جوڑتی ہے، لیکن جب انسان خلاء میں اڑتا پھرے اور خود کو خوابوں ہی خوابوں میں نجات دہندہ اور عقل کُل سمجھنے لگے تو وہ فکر و نظریہ کتاب سے بھی اتنا دوری اختیار کرتا ہے جتنا کہ وہ زمین سے دور ہوتا ہے ، اب انہیں کتاب ، فکر و نظریہ کی مزید ضرورت نہیں رہتی بلکہ نرگسیت کی خول ہی میں وہ نشونما پا رہا ہوتا ہے اجو اس کی ذہنی ، فکری بڑتھوئ کو روک دیتی ہے اور یوں وہ خود سے خود کو قوم کا مسیحا سمجھنے لگتا ہے ، اس خود ساختہ مسیحائ کے زعم میں یہ طبقہ جلد بازی و بے صبری میں وہ کر گذرتا ہے جو کوئ دشمن بھی نہیں سوچ سکتا، چاہے تنظیمیں ٹوٹ پوٹ کا شکار ہو، قومی بیانہ کی کچھڑی بن جاۓ ، نعرہ بازی سیاست بن جاۓ ، پروفائلنگ عام ہوجاۓ ،بس ان کا قد و کاٹھ سلامت رہے اور وہ پاپولر سیاست کے امین رہے یہ وہ نفسیاتی پہلو ہے جسے ایک جملے میں کارل مارکس نے سمیٹا ۔
لیکن سوال کا رستہ کون روک سکتا ہے؟ قلم کا راستہ کون روک سکتا ہے ،؟ تاریخ کا رستہ کون روک سکتا ہے؟ سوچ کا رستہ کون روک سکتا ہے؟ یہی تو ہماری سامراج کی بندوق سے جنگ ہے ، یاد رکھیں یہ سوالات ہمار ا پیچھا ہماری قبروں تک کریں گے ، یہ سوالات تاریخ میں ہر اس باشعور کے سامنے آہیں گے جنہیں مسیحاؤں کی ضروت نہیں آذادی فکر کی ضرورت ہے یہ سوالات کہ کیا فقط قربانیوں سے ایسی کارستانیاں چھپائی جاسکتی ہے؟ کیا ہم اخود احتسابی کے مراحل سے گذرنے کے جرات رکھتے ہیں ؟ یا ہم بزعم خویش مسیحائ کے اس درجے میں پہنچ گئے ہیں کہ کوئ ہم سے ہمارے اپنے اعمال کے بارے میں سوال ہی نہیں کرسکتا ، ہمیں کوئ جھنجھوڑ نہیں سکتا ؟کیا ہم جو چاہیں جب چاہیں کرتے پھرے کوئ ہم سے پوچھ نہیں سکتا ؟ کیونکہ ہم قربانیاں دے رہے ہیں ، ہم سے نہ پوچھا جاۓ اس لیے کہ ہم میدان عمل میں ہیں ، ہم شاہسوار ہیں لیکن ہماری غلطیوں پہ قربانی و عمل کا چادر کب تک ؟ ہم کب آسمان سے نظریں ہٹا کر زمینی حقائق کا سامنا کریں گے ؟ ہم کب قربانی کی چادر کو ہٹاکر نرگسیت کو کفن پہنائیں گے ؟ یا فقط بندوق کے زور پہ سامراج کی طرح من مانیاں کرتے پھریں گے یہ قلم گر سامراج کے بندوق کے خلاف اٹھ سکتا ہے تو پھر آپ کے بندوق کے خلاف بھی اٹھ سکتا ہے جس بندوق کے زور پہ من مانیاں جاری ہے۔ ہمیں خمار سے نکل کر زمین پہ آنا ہوگا ، زمین و زمین زادوں کو بچانا ہوگا ۔