میر خان، ہم شرمندہ ہیں تحریر :- ابو طلحہ

 


میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا وہ بدقسمت طالب علم گزر چکا ہوں، جس کے اکثر دوست بلوچ تھے۔ ان کے دکھ اور درد سن کر کلیجہ پھٹ جاتا تھا۔ یوں تو بلوچستان کے حوالے سے افسوسناک خبریں آتی رہتی ہیں، مگر حالیہ دنوں ہمارے ایک کلاس فیلو میر خان کے ساتھ پیش آنے والا دل خراش واقعہ کئی راتوں سے میری نیند چھین چکا ہے۔ یقیناً اگر بال بچوں کی مجبوری نہ ہوتی تو میں اپنی انتظامی پوسٹ اور مراعات کو خاطر میں نہ لاتا اور دوست کے لیے میدان میں نکل کھڑا ہوتا، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس غیر فطری ریاست میں حق اور سچ بولنے کی سزا کیا ہوتی ہے۔ اسی لیے خاموشی کو عافیت سمجھا۔
واقعہ یہ ہے کہ بلوچستان کے ضلع اوستہ محمد سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان میر خان لہڑی کو بدنام زمانہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے کالعدم تنظیموں سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ ان کے بارے میں بلوچستان ہائی کورٹ کے ممتاز وکیل اور ہمارے ہی کلاس فیلو محمد امین مگسی ایڈووکیٹ مسلسل گونگوں اور بہروں کو جگانے کے لیے لکھتے آرہے ہیں۔ البتہ مزید چند حقائق ہیں جنہیں ذکر کرنا ضروری ہے تاکہ میر خان کے معاملے پر ریاستی تنخواہ دار ٹاؤٹس اور پاکستانی صحافت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا جا سکے۔
میر خان کئی برسوں سے کوئٹہ کے برما ہوٹل کے قریب واقع ایک لائبریری میں بیٹھ کر مقابلے کے امتحانات کی تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے تحت مختلف امتحانات میں حصہ لیا، جن میں سے جوڈیشل مجسٹریٹ کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا مگر وائیوا میں رہ گئے۔ نائب تحصیلدار کا تحریری امتحان بھی پاس کیا اور صرف وائیوا باقی تھا۔ حال ہی میں محکمہ پولیس میں پراسیکیوٹر انسپکٹر کا امتحان اور انٹرویو دونوں کامیابی سے پاس کیے تھے اور جواننگ کے مراحل میں تھے کہ اچانک سی ٹی ڈی نے انہیں گرفتار کر کے ایک بوگس ایف آئی آر میں نامزد کر دیا۔
بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کے بارے میں ایک بزرگ بلوچ سیاستدان نے بجا کہا تھا:
“اسٹیبلشمنٹ نے سرفراز جیسے حوالدار ذہن کے شخص کو بلوچستان پر مسلط کیا ہے تاکہ حالات مزید بگاڑے جا سکیں۔ اس کی اپنی اوقات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر کونسلر کی نشست بھی نہیں جیت سکتا۔”
سرفراز بگٹی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نوجوانوں کے ہاتھ سے بندوق لے کر قلم دینا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بلوچستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بغیر ثبوت کے ماورائے عدالت گرفتار کیا جا رہا ہے۔ میر خان کی گرفتاری اسی سلسلے  کی کڑی ہے۔
اس وقت ریاستی ٹاؤٹس اور میڈیا میر خان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، جو ان کی ساکھ اور خاندان کے لیے نہایت تکلیف دہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس ظلم پر پرزور آواز اٹھانی چاہیے۔ ان پروپیگنڈہ بیانات کے جھوٹے ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ میر خان ابھی تک پراسیکیوٹر تعینات نہیں ہوئے تھے بلکہ جواننگ کے مراحل میں تھے۔ اس کے باوجود پاکستان کے مؤقر روزنامہ جنگ نے سی ٹی ڈی کے ذرائع کے حوالے سے انہیں ’’سابق پراسیکیوٹر‘‘ قرار دے دیا اور الزامات کی ایک فہرست ذکر کی۔
اسی طرح ریاستی پروپیگنڈہ نیٹ ورک سے وابستہ بلاگرز اور وی لاگرز جھوٹے بیانیے گھڑتے ہیں۔ کوئی انہیں ’’میر محمد خان‘‘ کہہ کر پکارتا ہے، کوئی بلوچ یکجہتی کمیٹی سے منسلک کرتا ہے حالانکہ میر خان کبھی اس تنظیم کے کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اور نہ ہی اس کی قیادت سے ملاقات کی۔ ایک مشہور ریاستی خاتون وی لاگر اور ریاستی سوشل میڈیا چینل سے وابستہ پاکیزہ خان سمیت دیگر ٹاؤٹس تو انہیں ’’بیوٹمز کے سابق لیکچرار‘‘ کے قریبی ساتھی کے طور پر پیش کر رہی ہیں، جبکہ پاکیزہ خان نامی عجوبہ نام کو میر خان کا نام تک معلوم نہیں  اور اپنے وی لاگ میں دو مرتبہ ہمارے دوست کو میر محمد خان کہہ کر مخاطب کیا۔ یہ سب اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ اصل ہدف بلوچ نوجوانوں کی ساکھ کو مسخ کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ریاست جب بھی کالعدم تنظیموں کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھاتی ہے تو اس کا ردعمل عام سولین پر نکلتا ہے تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ کارروائیاں ’’کامیاب‘‘ جا رہی ہیں۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ مسلح افراد کے خلاف براہِ راست جانے کی جرات نہیں کی جاتی۔ اس رویے کی مثال ایک دہائی قبل حامد میر کے انٹرویو میں سامنے آئی تھی جہاں وزیرستان کے لوگ بتا رہے تھے کہ فوج کو کالعدم  ٹی ٹی پی کے ٹھکانے دکھائے جاتے ہیں مگر وہ ڈر کے مارے وہاں جانے کے بجائے عام شہریوں کو ہراساں کرتی ہے۔ بلوچستان میں بھی یہی تماشا جاری ہے۔
کاش پاکستان کے مفتی منیب صاحب اور دیگر علماء کرام، فیلڈ مارشل جیسے طاقتوروں کی صفائی میں سہیل وڑائچ کی گفتگو کو فقہی توجیہات دینے کی بجائے بلوچستان کے مظلوم نوجوانوں کے حق میں بھی اپنی زبان کھول کر اپنے علم کا حق ادا کرتے۔جبکہ اس کے برعکس مفتی منیب صاحب اور مفتی عبد الرحیم المعروف ’استاد صاحب‘ جیسے عسکری مفتیان کے فتوؤں نے سی ٹی ڈی جیسے نام نہاد اداروں کو یہ کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ محض شک کی بنیاد پر کسی بھی بے گناہ بلوچ اور پشتون کی زندگی کو جہنم بنا سکیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 2019 میں جب بدنامِ زمانہ سی ٹی ڈی نے پنجاب کے شہر ساہیوال میں ایک جعلی مقابلے کے دوران خلیل نامی شخص، اس کی اہلیہ اور ایک شہری کو بے دردی سے قتل کیا اور ان کے معصوم بچے معجزانہ طور پر زندہ بچے، تو اسی مفتی عبد الرحیم کے عسکری مدرسہ سے وابستہ جید عالم  دین سید عدنان کاکا خیل نے افسردہ ہوکر ایک شعر کی صورت میں اپنی کیفیت بیان کی تھی:

نازل کر اب عیسیٰ کو
اب بھیج خدایا مہدی کو
دیکھ دجال آزاد ہوئے
اور پھولوں کے کیا حال ہوئے

سوال یہ ہے کہ اگر ساہیوال کے معصوم بچوں پر ظلم دیکھ کر آپ کے دل پگھل سکتے ہیں، تو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں روز بروز بڑھتی ہوئی سی ٹی ڈی کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی پر آپ کے لب کیوں خاموش ہیں؟ کیا دین صرف وہاں بولنے کا حکم دیتا ہے جہاں اسٹیبلشمنٹ کی اجازت ہو؟
یاد رکھیے، قیامت کے دن ان مظلوموں کے ہاتھ ضرور آپ کے گریبان تک پہنچیں گے، اور آپ سے یہ سوال ہوگا کہ انبیاء کی وراثت کے دعوے کے باوجود آپ نے اپنے منصبی فرض کو کس طرح ادا کیا۔ وقت کے فرعون جب ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے، اس وقت آپ کہاں کھڑے تھے؟ اور کیا آپ کے فتوے ظلم کا ہاتھ مضبوط کرنے کا سبب تو نہیں بنے؟
میں اس مضمون کے ذریعے اپنے دوست میر خان سے معذرت اور شرمندگی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ اس ’’بنانا ریپبلک‘‘ میں ہم آپ کے لیے قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے بھی آواز بلند نہیں کر سکتے۔ ہم آپ کے سامنے شرمندہ ہیں۔ ہوسکے تو ہمارے معصوم بچوں کی خاطر ہمیں معاف کر دیجیے۔ ہماری دعا ہے کہ آپ اس آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلیں، اور جو تنخواہ دار محض اپنی تنخواہ حلال کرنے کے لیے آپ پر جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں رسوا کرے۔

نوٹ: اپنے تحفظ کے پیش نظر میں نے اس مضمون میں اپنے نام کے بجائے اپنی کنیت لکھا ہے تاکہ ’بہادر محافظوں‘ کے غیض و غضب سے بچ سکوں۔

(شکریہ باور نیوز)

Post a Comment

Previous Post Next Post