ڈاکٹر عثمان قاضی اور پاکستانی Bullshitter ذوالفقار علی زلفی



"ریاست نے مجھے سب کچھ دیا ہے ـ عزت دی ہے،  وقار دی ہے،  نوکری دی ہے،  اہلیہ کو بھی نوکری دی ہے ـ اس کے باوجود میں نے قانون کی خلاف ورزی کی اور ریاست سے غداری کی ہے اور میں تہہ دل سے شرمندہ ہوں"
درج بالا اقتباس پنجابی استعمار کے بلوچ قیدی ڈاکٹر عثمان قاضی کے "اعترافی" ویڈیو بیان سے لیا گیا ہے ـ ڈاکٹر عثمان قاضی 12 اگست 2025 کو اپنے گھر واقع کوئٹہ سے اپنے بھائی جبران سمیت گرفتار کرکے جبراً لاپتہ کئے گئے ـ 17 اگست کے دن اچانک استعمار کے سوشل میڈیا پروپیگنڈہ اکاؤنٹس سے ڈاکٹر عثمان قاضی کو بی ایل اے کا کمانڈر بتانا شروع کیا گیا ـ اس کے اگلے دن یعنی 18 اگست کو بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیراعلی سرفراز بگٹی نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کے دوران 17 اگست کے سوشل میڈیائی پروپیگنڈے کی تائید کرکے ڈاکٹر عثمان قاضی کا اعترافی ویڈیو بیان نشر کردیا جس میں عثمان قاضی خود کو بلوچ لبریشن آرمی کا سہولت کار قرار دے کر اس عمل پر شرمندگی کا اظہار کر رہے ہیں ڈاکٹر عثمان قاضی کے اعترافی ویڈیو بیان کو پاکستانی میڈیا پر پورا دن چلایا گیا ـ ٹی وی ٹاک شوز ہوئے، بعض یوٹیوبرز نے بھی اس اعترافی ویڈیو پر طویل تبصرے و تجزیے کئے ـ
ڈاکٹر عثمان قاضی 12 اگست سے 18 اگست تک کہاں تھے؟ ، کس کی تحویل میں تھے؟ ، انہیں پاکستانی قانون کے مطابق 24 گھنٹے کے اندر کسی مجسٹریٹ کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا گیا؟ ، کیا کسی شہری کو پانچ دن تک جبراً لاپتہ کرکے اس کا حراستی
اعترافی ویڈیو بیان چلانا پاکستان کے اپنے قوانین کے تحت درست عمل ہے؟ ـ یہ اور ان جیسے متعدد سوالات کسی بھی ٹی وی ٹاک شو ، یوٹیوب ولاگ یا سوشل میڈیا پر نہیں اٹھائے گئے ـ یہ سوال بھی کسی  نے نہیں اٹھایا کہ ان کے ساتھ جبراً لاپتہ ہونے والے جبران قاضی کہاں ہیں؟  ـ
بعض صحافیوں نے بظاہر غیر جانب داری کا تاثر برقرار رکھنے کے لئے نکتہ اٹھایا کہ ریاست کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ایک پی ایچ ڈی لیکچرار کیوں دہشت گردی کا مرتکب ہوا ـ یہ غیر جانب دار صحافی ایک ایسے ملزم کو جو چھ دن تک قانون کے دائرے سے باہر رہا کو ایک ویڈیو بیان سے مجرم قرار دے کر اس کے مجرم بننے کے پسِ پشت عوامل کا تجزیہ کر رہے تھے ـ
سرِ دست ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ ڈاکٹر عثمان قاضی کی ویڈیو جو تکنیکی لحاظ سے انتہائی خراب ایڈیٹنگ کے عمل سے گزری ہے ؛ اس میں دہرایا گیا بیان کس  حد تک درست ہے ـ مگر بیہودہ گوئی (bullshit) کی ثقافت نے اس کو درستی کی سند عطا کردی ہے ـ
اردو پر دسترس نہ رکھنے کے باعث میں bullshit کا درست ترجمہ کرنے سے قاصر ہوں ـ عموماً اسے بکواس کے مفہوم میں لیا جاتا ہے لیکن میرے نزدیک شاید بکواس پورا مفہوم بیان نہ کرسکے ـ bullshit کا نظریہ بنیادی طور پر امریکی فلسفی ہیری جی فرینکفرٹ ( Harry G. Frankfurt) کی تخلیق ہے ـ
فرینکفرٹ کے مطابق جھوٹی معلومات پھیلانے والوں یا جھوٹا بیانیہ تخلیق کرنے والوں کو سچائی کا ادراک ہوتا ہے ـ وہ سوچ سمجھ کر سچائی کے سامنے جھوٹ کی دیوار کھڑی کرتے ہیں تاں کہ لوگوں کو سچ تک پہنچنے سے روکا جاسکے ـ دوسری جانب بیہودہ گو (bullshitter) کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی جو وہ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے یا جھوٹ ـ وہ محض ردعمل کی نفسیات کا شکار ہو کر توجہ پانے یا کسی مخصوص سوال کو رد کرنے کے لئے حقائق کے منافی بولتے و لکھتے چلے جاتے ہیں ـ بیہودہ گو کو چوں کہ سچ اور جھوٹ کی نہ تمیز ہوتی ہے اور نہ سمجھنے کی چاہ اس لئے وہ اپنے کہے و لکھے کو ہی آفاقی سچ تسلیم کرتا ہے ـ
ڈاکٹر عثمان قاضی بھی پنجابی استعمار کے bullshitter کا شکار ہوگئے ـ بلوچ رہنماؤں،  سیاسی کارکنوں،  دانش وروں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے خلاف یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے ـ بعض bullshitter بظاہر سلجھے ہوئے کہنہ مشق صحافی و دانش ور نظر آتے ہیں مگر بلوچ کے باب میں وہ فوراً استعماری بیانیے کو آفاقی سچ منوانے نکلنے پڑتے ہیں ـ جیسے معروف پاکستانی صحافی اعزاز سید کے پروگرام "ٹاک شاک" میں فخر درانی نامی bullshitter (بظاہر صحافی) مسلسل بلوچ کے حوالے سے بیہودہ گوئی پر اتر آتے ہیں ـ مثال کے طور پر ایک دفعہ انہوں نے بلوچ قومی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو ایک "کھڑوس عورت" کے خطاب سے یاد کیا ـ اسی طرح اعزاز سید کے حالیہ ایک پروگرام میں جب اعزاز نے اسلام آباد میں دھرنا دینے والی بلوچ خواتین کی داد رسی کا ذکر چھیڑا تو bullshitter فخر درانی نے فوراً بات کاٹ کر کہا یہ لوگ بی ایل اے کے ہاتھوں قتل ہونے والے پنجابیوں کی مذمت نہیں کرتے ، یہ بھی تو غلط بات ہے ـ اب بھلا جبری گم شدگان کے لواحقین جو ریاستی آئین و قانون کے تحت انصاف طلب کر رہے ہیں ان پر کیوں اور کیسے ایک مسلح بلوچ تنظیم کی کارروائیوں کی مذمت فرض ہوگئی؟ ـ یہ بیہودہ گوئی محض فخر درانی تک محدود نہیں ہے پنجابی استعمار کے تمام ظاہر و پوشیدہ حامی یہ مسلسل بولتے و لکھتے آ رہے ہیں ـ
اس حوالے سے ایک طویل فہرست ہے ـ جیسے عمر چیمہ نامی ایک کارٹون جو پہلے سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشری وٹو کی شلوار کا تجزیہ کرکے عدت میں شادی کی قابلِ مذمت خبر پر فخر کرتے رہے اب موصوف ہر کچھ دن بعد ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے مذمت مانگنے اور بلوچوں کو پنجاب کے پیسوں پر پڑھنے کا طعنہ دیتے نظر آتے ہیں ـ اس فہرست میں پروفیسر عمار علی جان جیسے بائیں بازو کے انٹلیکچوئل بھی آتے ہیں جن کے مطابق بلوچ قومی تحریک دراصل بلوچ مڈل کلاس کی پاکستانی اقتدار میں عدم شرکت کا نتیجہ ہے ـ
بیہودہ گوئی کی ثقافت پاکستان میں انتہائی مضبوط نظر آتی ہے ـ یہ بیہودہ گو کسی بھی معاملے پر اس قدر یقین کے ساتھ بیہودہ گوئی کرتے ہیں کہ انہیں خود بھی علم نہیں ہوتا جو وہ بول رہے ہیں وہ کس حد تک سچ ہے اور کس حد تک جھوٹ ـ بلوچ کے معاملے میں ان کے اس یقین کو پاکستان کی عمومی فضا بھی خاصی کمک فراہم کرتی ہے جو بلوچ کو ایک جارح نسل پرست کی صورت پیش کرکے پنجابی کو مظلوم و محکوم سمجھتی ہے ـ پاکستان کی عمومی فضا اور استعمار کے حامی بیہودہ گوؤں کو اس سے کوئی غرض نہیں صرف اس سال کی پہلی ششماہی میں 800 سے زائد بلوچ جبراً گم شدہ کئے گئے ہیں ، وہ پورے ایمان و یقین کے ساتھ سمجھتے ہیں بلوچ جبری گم شدگی محض ایک ڈرامہ ہے ـ
اوپر میں نے ڈاکٹر عثمان قاضی کے پروپیگنڈہ ویڈیو بیان کا ایک اقتباس شیئر کیا تھا ـ یہ اقتباس خصوصی توجہ کا مستحق ہے ـ یہاں چھ روز تک جبراً گم شدہ رہنے والے بلوچ قیدی نے ریاست کا احسان تسلیم کرتے کہا ہے کہ ریاست نے اسے عزت،  وقار اور نوکری دی ہے ـ
یہ احسان مندی دراصل نوآبادیاتی بیانیہ ہے جو مقامی کو باور کروانے کی کوشش کرتی ہے کہ میرے بغیر اس کی کوئی عزت نہیں ہے ـ کلاسیک یورپی نوآبادکار یہ بات کھلے عام کہتے تھے کہ ایشیا،  افریقا یا لاطینی امریکی اقوام وحشی ہیں جنہیں تہذیب آشنا کرنے کی ذمہ داری ہمیں تفویض کی گئی ہے ـ یہی بات پنجابی استعمار گھما پھرا کر کہتا ہے مگر مقصد یہی ہے کہ بلوچ بنیادی طور عزت سے محروم قوم ہے جسے عزت ، وقار،  تعلیم اور نوکری ہم دیتے ہیں ـ ڈاکٹر کے اس بیان کو مزید کرید کر دیکھا جائے تو مطلب نکلتا ہے بلوچستان کے وہ باشندے جنہیں اسلام آباد میں پڑھنے کے مواقع نہیں ملے وہ عزت و وقار سے محروم وحشی افراد ہیں جن کو اندھیرے سے روشنی میں لانے کی ذمہ داری استعمار کی ہے،  اگر استعمار ان کا ہاتھ نہ پکڑے تو وہ نہ صرف بے عزت زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے بلکہ وہ ایک وحشی سماج کو پروان چڑھائیں گے ـ استعمار نے بلوچ کو تہذیب و تمدن سے آشنا کیا مگر بلوچ نے قومی شناخت کی بحالی اور اپنے قومی وسائل پر اپنا حق جتا کر احسان فراموشی کی ـ اس احسان فراموشی کی سزا کے طور پر استعمار نے اپنی دی ہوئی عزت واپس لے کر ڈاکٹر عثمان قاضی کا تماشا بنا کر انہیں جارح نسل پرست دہشت گرد کے روپ میں پیش کردیا ـ
استعمار کی ہمیشہ پہلی کوشش محکوم کو عزت نفس سے محروم کرنا اور اس کو حقیر ثابت کرنا رہا ہے ـ ڈاکٹر عثمان جیسے جوان سماج کی اجتماعی محنت کے ذریعے پس ماندگی کے نوآبادیاتی ہتھیار کا مقابلہ کرکے کسی مقام تک پہنچ بھی جائیں تب بھی ان کا مقام و مرتبہ استعمار کے مرہون منت رہتی ہے اور وہ جب چاہے انہیں صبا دشتیاری کی طرح گولی مار کر،  ساجد حسین کی مانند ندی میں ڈبو کر یا ڈاکٹر عثمان قاضی جیسے عبرت ناک انجام تک پہنچا سکتا ہے ـ
اس سے قطع نظر پاکستانی نظامِ انصاف میں پروپیگنڈہ اعترافی ویڈیو بیان کی کوئی قانونی حیثیت ہے یا نہیں؛  مقصد انہیں تماشا بنا کر عبرت کی صورت مجسم کرنا تھا جو استعمار اور اس کے بیہودہ گو حامیوں نے بنا کسی لحاظ کے کرلیا ـ اب استعماری عدالتیں اگر مہربانی کرکے ان پر لگے الزامات ختم بھی کردیں تب بھی ڈاکٹر عثمان قاضی اپنی کھوئی ہوئی عزت اور سابقہ اعتماد بحال نہیں کرپائیں گے ـ ایک سال قبل یہی وردات گھریلو خاتون محترمہ ماہل بلوچ کے ساتھ بھی کی گئی ـ انہیں دنیا بھر میں ایک خودکش بمبار بنا کر پیش کیا گیا ـ ان کے پہلے سے طے شدہ انٹرویوز نشر کرکے انہیں ڈائن بنا کر دکھایا گیا ـ عدالتوں نے احسان کرکے انہیں چھوڑ دیا ـ کیا اب بھی وہی ماہل بلوچ وجود رکھتی ہے جو اس ذلت آمیز واقعے سے پہلے تھی؟  یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے ـ
سماجی سطح پر ملنے والی اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر عثمان قاضی اور ان کا گھرانہ بلوچ سماج کا ایک باشعور گھرانہ ہے ـ ان کی تضحیک و تحقیر سے بلوچ سماج میں ان کے مقام و مرتبے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر کیا خود عثمان قاضی توہین و تضحیک کے شدید احساس سے ہونے والی نفسیاتی شکست و ریخت کے بعد خود کو بحال کرپائیں گے؟  اس کا قطعی جواب نہیں دیا جاسکتا ـ قطعیت سے محرومی ہی اس سانحے کو دہشت ناک بناتا ہے ـ اس نرم دہشت گردی کے نتیجے میں اگر دیگر بلوچ انٹلیکچوئل خوف کا شکار ہوکر اپنی ذات میں محصور ہوجائیں تو اچھنبا نہیں ہونا چاہیے ـ تاہم بقول فینن محکوم کی پہلی گولی چلنے کے بعد مردہ امیدیں زندہ اور مایوسی کے بادل چُھٹ جاتے ہیں اس لئے یقینی طور پر بلوچ قومی شعور ڈاکٹر عثمان قاضی کی تضحیک کو بھی اپنا ہتھیار بنائے گا (شکریہ باور نیوز)

Post a Comment

Previous Post Next Post