ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بلوچستان میں احتجاجی حقوق کی پامالی اور جبری گمشدگیوں کے تسلسل پر اظہارِ تشویش

 


انٹرنیشنل( ویب ڈیسک )ایمنسٹی انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیا ریجنل آفس نے جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کے ضلع حب سمیت مختلف علاقوں میں پرامن احتجاج کو طاقت سے کچلنے اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

بیان کے مطابق 5 جولائی 2025 کو 21 سالہ ذیشان ظہیر کی مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف انصاف کے مطالبے پر کیے گئے پرامن احتجاج پر حکام نے غیر ضروری طاقت کا استعمال کیا اور پانچ مظاہرین کو بلاجواز حراست میں لے لیا۔ زیر حراست افراد میں چار خواتین بھی شامل تھیں جنہیں دو دن بعد رہا کردیا گیا، تاہم انسانی حقوق کے کارکن عبداللہ بلوچ اب بھی پبلک آرڈر آرڈیننس کے تحت گڈانی جیل میں قید ہیں۔

ایمنسٹی نے یہ بھی بتایا کہ 6 جولائی کو کیچ سول سوسائٹی کے کنوینر اور معروف بلوچ انسانی حقوق کے کارکن گلزار دوست کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے ان کی رہائش گاہ سے اغواء کیا۔ ان پر پاکستان پینل کوڈ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ گلزار دوست کو اس سے قبل جولائی 2024 میں بلوچ راجی مچّی سے قبل نظر بند رکھا گیا تھا تاکہ وہ اس اجتماع کے لیے متحرک نہ ہو سکیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ قوانین کا غلط استعمال کرکے پرامن بلوچ کارکنان کو نشانہ بنانے کا سلسلہ فوری بند کیا جائے اور گلزار دوست، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت تمام گرفتار کارکنان کو فی الفور رہا کیا جائے۔ ایمنسٹی نے اس بات پر زور دیا کہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات کی شفاف اور آزادانہ تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داران کو منصفانہ عدالتی کارروائی کے ذریعے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عالمی برادری، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے اداروں پر بھی زور دیا کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز اٹھائیں اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کریں۔


Post a Comment

Previous Post Next Post