ڈاکٹر ماہ رنگ و ساتھیوں کو ذہنی ہراسانی، دھمکیوں اور قیدیوں کے حقوق سے محرومی کا سامنا ہے- نادیہ بلوچ



بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء  ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نے کہا ہے کہ ماہ رنگ، بیبو، گلزادی، صبغت اللہ شاہ جی، اور بیبرگ زہری کی گزشتہ ہفتے عدالت میں پیشی کے بعد سے ان افراد کو الگ الگ تھانوں میں منتقل کر دیا گیا ہے جو آئینی اور قانونی تقاضوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔


ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نے ایک تفصیلی بیان میں انکشاف کیا ہے کہ اگرچہ دو مختلف ماتحت عدالتوں نے واضح احکامات جاری کیے تھے کہ زیر حراست افراد کو قانونی معاونت اور خاندان سے ملاقات کی اجازت دی جائے تاکہ دفاع کی تیاری کی جا سکے لیکن پولیس مسلسل اس بنیادی حق سے انکار کر رہی ہے یا قانونی دستاویزات پر دستخط کے لیے کئی کئی گھنٹے انتظار کروا رہی ہے۔


بیان میں کہا گیا ہے کہ خاص طور پر خواتین قیدیوں کی حراست پر مامور عملہ نہ صرف غیر تعاون پر مبنی اور توہین آمیز رویہ اختیار کیے ہوئے ہے بلکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 10 اور 10-A کی بھی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے جو منصفانہ ٹرائل اور قانونی نمائندگی کا حق دیتا ہے۔


صبغت اللہ شاہ جی اور بیبرگ زہری کی حالت خاص طور پر تشویش ناک قرار دی گئی ہے جو کینٹ تھانے میں قید ہیں اور جہاں نہ خاندان اور نہ ہی وکلاء کو ان سے رابطے یا ان کی خیریت جاننے کی اجازت دی جا رہی ہے یہ صورتحال عدالتی احکامات کی سنگین خلاف ورزی اور غیر قانونی حراست کے مترادف ہے۔


بیان کے مطابق جس خواتین پولیس تھانے میں ڈاکٹر ماہ رنگ، بیبو اور گلزادی کو رکھا گیا ہے وہ عملاً کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ “سی ٹی ڈی” اور خفیہ اداروں کے زیر کنٹرول ہے نہ کہ سویلین پولیس کے۔


ماہ رنگ بلوچ کی بہن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ زیر حراست افراد کو ذہنی ہراسانی، دھمکیوں اور قیدیوں کے حقوق سے محرومی کا سامنا ہے جن میں وکیل، اہل خانہ اور طبی سہولیات تک رسائی شامل ہیں جو نہ صرف پولیس رولز 1934 کی دفعہ 974 بلکہ پاکستان کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے وعدوں کے بھی خلاف ہے۔


بیان میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ خود بیان کنندہ کو بھی انٹیلیجنس اہلکاروں کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے جو آدھی رات کے بعد ان کی رہائشگاہ کے باہر نمودار ہوئے یہ اقدام واضح طور پر دباؤ ڈالنے اور قانونی مزاحمت کو خاموش کروانے کی کوشش ہے۔


انہوں نے یورپی یونین، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ حکومت پاکستان کو ان سنگین خلاف ورزیوں پر جوابدہ بنائیں اور مقامی عدالتی فیصلوں اور عالمی معاہدوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔


بیان کے آخر میں پاکستان کی عدلیہ، سول سوسائٹی، بار کونسلز اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں سے فوری مداخلت کی اپیل کی گئی ہے تاکہ قانون کی حکمرانی بحال ہو اور زیر حراست افراد کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ممکن ہو۔



Post a Comment

Previous Post Next Post