نوکنڈی (نامہ نگار) تحصیل نوکنڈی کے قریب ایران سے متصل راجے گزر کو بند ہوئے ایک ماہ مکمل ہوچکا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد ایرانی حکام نے ممکنہ حفاظتی اقدامات کے تحت اس گزرگاہ کو عارضی طور پر بند کیا تھا۔لیکن صورتحال معمول پر آنے کے باوجود راجے گزر بدستور بند ہے، جس سے نہ صرف ہزاروں مقامی افراد کا روزگار متاثر ہوا ہے بلکہ ضلع چاغی کی نچلی سطح کی معیشت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ راجے گزر کے ذریعے ایران سے ڈیزل کی ترسیل ہوا کرتی تھی۔ ضلع چاغی سے تعلق رکھنے والی چار ہزار سے زائد گاڑیاں باضابطہ رجسٹریشن کے تحت مہینے میں ایک مرتبہ ڈیزل لانے کی اجازت رکھتی تھیں۔ یہی سرگرمی یہاں کے عوام کا بنیادی ذریعہ معاش تھی۔ بارڈر سے جڑا یہ محدود کاروبار، ہزاروں خاندانوں کے گھروں کا چولہا جلاتا تھا۔ تاہم گزر کی بندش کے بعد حالات انتہائی دگرگوں ہوچکے ہیں۔ مقامی افراد معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ کاروبار مفلوج ہوچکے ہیں مکینک اور ویلڈنگ، ہوٹل ویران، پرچون دکانیں خسارے کا سامنا کررہی ہیں۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے سیکڑوں نوجوان بے روزگار ہوچکے ہیں۔ کئی گھرانے نان شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں دالبندین میں منعقدہ گرینڈ قومی جرگے میں عوام نے وزیراعلیٰ بلوچستان اور دیگر حکام بالا کے سامنے نہایت عاجزی سے اپیل کی کہ راجے گزر کو بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ مقامی آبادی کو ایک بار پھر روزگار مل سکے اور ایک ممکنہ انسانی المیے سے بچا جاسکے۔ عوامی، کاروباری حلقوں نے ایک بار پھر ارباب اختیار سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ راجے گزر کو فوری طور پر کھولا جائے تاکہ معاشی سرگرمیاں بحال ہوں اور چاغی کے محروم عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔