بلوچستان میں 20 مارچ 2025 سے شروع ہونے والا ریاستی کریک ڈاؤن آئین، قانون اور انسانی حقوق کے تمام تقاضوں کو روندنے کی ایک واضح مثال بن چکا ہے۔ حکومت بلوچستان نے اس مہم کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی قیادت، سینٹرل کمیٹی کے ارکان، اور نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو 3 ایم پی او (Maintenance of Public Order) کے تحت بغیر کسی مقدمے یا وارنٹ کے حراست میں لیا۔
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ 3 ایم پی او کے تحت کسی شخص کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کے لیے نظر بند کیا جا سکتا ہے، مگر ان رہنماؤں کو پہلے ایک ماہ، پھر پندرہ دن، اور آخر میں ایک ہفتے کی توسیع دے کر مسلسل چار ماہ تک قید میں رکھا گیا — جو سراسر غیر آئینی عمل ہے۔
جعلی مقدمات، زنجیروں میں جکڑے رہنما
8 جولائی 2025 کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر مہرنگ بلوچ، سینٹرل کمیٹی رکن صبغت اللہ شاہ جی، نیشنل پارٹی کے بزرگ رہنما ماما غفار قمبرانی، اور دیگر سیاسی کارکنوں — کامریڈ بیبگر بلوچ، گِلزاری، بیںو — کو انسداد دہشتگردی عدالت، کوئٹہ میں پیش کیا گیا۔ ان پر جعلی اور بے بنیاد الزامات عائد کر کے مزید 10 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
عدالت میں پیش کیے گئے کامریڈ بیبگر بلوچ، جو دونوں ٹانگوں سے معذور ہیں، کو ویل چیئر پر لایا گیا، جبکہ دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر انہیں پیش کیا گیا۔ ایسے معذور شخص کو اس انداز میں عدالت میں پیش کرنا ریاستی اداروں کی غیر انسانی سوچ اور انتقامی کارروائیوں کی بدترین مثال ہے۔
اسی طرح ڈاکٹر مہرنگ، صبغت اللہ، بینو اور ماما قمبرانی کو بھی زنجیروں میں جکڑ کر پیش کیا گیا — گویا ان پر قتل یا دہشتگردی کے سنگین الزامات ثابت ہو چکے ہوں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف آئینی تقاضوں بلکہ انسانی وقار کی بھی توہین ہے۔
اہم سوالات جو جواب طلب ہیں:
اگر ان سیاسی کارکنوں نے واقعی کوئی غیر قانونی عمل کیا تھا، تو انہیں چار ماہ تک صرف 3 ایم پی او کے تحت کیوں قید رکھا گیا؟
اگر وہ مطلوب تھے، تو گرفتاری کے فوراً بعد عدالت میں مقدمات کیوں پیش نہیں کیے گئے؟
اگر عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے اب جعلی مقدمات بنائے جا رہے ہیں، تو کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ ریاستی ادارے خود قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں؟
اگر تحقیقات چار ماہ میں مکمل نہ ہو سکیں، تو محض دس دن کے ریمانڈ میں کیا حاصل کیا جائے گا؟ کیا یہ سب محض ذہنی و جسمانی اذیت دینے کی منظم کوشش نہیں؟
3 ایم پی او کا غلط استعمال — آئین کی صریح خلاف ورزی
3 ایم پی او ایک ایسا انتظامی حکم ہے جو صرف ان افراد کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کسی جرم میں باقاعدہ مطلوب نہ ہوں۔ اسے صرف ڈپٹی کمشنر کے حکم سے نافذ کیا جا سکتا ہے اور یہ عدالتی نگرانی کے تحت چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہاں اسے سیاسی مخالفین کو طویل عرصے تک زیرِ حراست رکھنے کے لیے ایک ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔
حکومت کا مشکوک کردار اور ریاستی اداروں کی ننگی جارحیت
یہ بات اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ حکومت بلوچستان اور ریاستی ادارے آئین و قانون کو محض اپنی طاقت کے تحفظ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کو بغیر ثبوت گرفتار کر کے ان پر بوگس مقدمات قائم کرنا ریاستی انتقام کے سوا کچھ نہیں۔
آئین، قانون اور انسانی حقوق کا مذاق
پاکستان کا آئین اور عالمی انسانی حقوق کا قانون اس بات کا پابند کرتا ہے کہ کسی بھی گرفتار شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کیا جائے۔ مگر ان سیاسی رہنماؤں کو چار ماہ تک قید میں رکھا گیا اور جب عدالت سے رجوع کیا گیا تو جھوٹے الزامات گھڑ کر پیش کر دیے گئے۔ یہ قانون کی صریح پامالی اور انصاف کے نظام کا تمسخر ہے۔
مطالبات
ہم معزز عدلیہ سے پُرزور اپیل کرتے ہیں:
1. ان غیر قانونی گرفتاریوں اور جعلی مقدمات کا از خود نوٹس لیا جائے۔
2. حکومت بلوچستان اور متعلقہ اداروں سے جواب طلب کیا جائے کہ چار ماہ تک ان افراد کو بغیر مقدمے قید میں کیوں رکھا گیا؟
3. ان افسران اور اداروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے جو آئین و قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔
4. زیرِ حراست سیاسی کارکنوں کو فوری طور پر بے گناہ قرار دے کر رہا کیا جائے۔
اختتام
یہ طرزِ عمل کہ جسے چاہو، جیسے چاہو، قانون کی آڑ میں نشانہ بنا دو نہ صرف آئین کی توہین ہے بلکہ ریاست کی ساکھ اور شہریوں کے اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر عدلیہ نے اس پر خاموشی اختیار کی تو یہ رویہ ایک خطرناک روایت میں تبدیل ہو جائے گا، جس کے نتائج نہایت بھیانک ہوں گے۔
بلوچستان کے سیاسی کارکن نہ دہشتگرد ہیں، نہ مجرم۔ وہ صرف اپنے آئینی، قومی، انسانی اور جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی آواز کو دبانا ملک و قوم کے لیے مستقل عدم استحکام اور بداعتمادی کو جنم دے گے۔