کراچی ( مانیٹرنگ ڈیسک) مقبوضہ بلوچستان ، بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) نے اپنی تازہ ششماہی رپورٹ (جنوری تا جون 2025) جاری کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے، جہاں صرف چھ ماہ کے دوران 752 افراد جبری طور پر لاپتہ اور 117 افراد ماورائے عدالت قتل ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق، بی وائی سی کے مرکزی رہنما سمی دین بلوچ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صحافیوں کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ
لاپتہ کیے گئے 752 افراد میں سے 181 کو بعد میں رہا کیا گیا، جبکہ 25 افراد کو دورانِ حراست قتل کر کے ان کی لاشیں پھینک دی گئیں۔ 546 افراد تاحال لاپتہ ہیں، اور ان کے اہلِ خانہ کو کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔ سب سے زیادہ کیسز مکران ڈویژن سے سامنے آئے، جبکہ فرنٹیئر کور (FC) کو سب سے زیادہ ملوث قرار دیا گیا۔
ماورائے عدالت قتل اور تشدد
رپورٹ میں کہا گیا کہ 117 ماورائے عدالت قتل میں زیادہ تر نوجوان، طلبہ اور سیاسی کارکن شامل ہیں، جنہیں جعلی مقابلوں، “مارو اور پھینک دو” پالیسی، اور زیرِ حراست تشدد کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ہر لاش پر تشدد کے نشانات موجود تھے، جو ریاستی اداروں کے غیر انسانی رویے کو ظاہر کرتا ہے۔
اجتماعی سزا اور شہری آزادیوں کی معطلی
رپورٹ نے نشاندہی کی کہ بلوچستان میں اجتماعی سزا معمول بن چکی ہے، جہاں متاثرہ خاندانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، گھروں پر چھاپے، خواتین و بچوں پر تشدد اور نقل و حرکت پر پابندیاں عام ہیں۔ اظہارِ رائے، پرامن احتجاج اور سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی ہے، جبکہ BYC جیسے اداروں کو دہشت گردی سے جوڑ کر ان کے خلاف فورتھ شیڈول اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی مذمت
اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر اداروں نے اس عرصے میں پاکستان پر انسانی حقوق کے عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے ہیں، خاص طور پر جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل پر۔
اسلام آباد احتجاج پر ریاستی جبر
رپورٹ کے اجراء کے ساتھ، بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اسلام آباد میں جاری پرامن احتجاج پر بھی تشویش ظاہر کی، جہاں 16 جولائی سے گرفتار قیادت (ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر) کے لواحقین دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
ان لواحقین کو اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے مسلسل ہراسانی اور جبر کا سامنا ہے۔ نہ صرف انہیں پریس کلب کے سامنے ٹینٹ لگانے سے روکا گیا بلکہ انہیں بارش اور گرمی میں کھلے آسمان تلے بیٹھنے پر مجبور کیا گیا۔ کئی بار رات کے وقت فلیٹ سے زبردستی بے دخل کیا گیا اور پریس کلب کے اطراف خاردار تاریں لگا کر محاصرے میں رکھا گیا تاکہ عوام انہیں نہ دیکھ سکیں۔
خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے بلوچ طلبہ کے فلیٹ پر چھاپے مار کر ان کا سامان ضبط کیا اور نسلی بنیاد پر پروفائلنگ شروع کر دی، جس سے نہ صرف احتجاجی لواحقین بلکہ ان کے ساتھ کھڑے طلبہ بھی غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور گرفتار قیادت بلوچ عوام کی آواز ہیں، اور ان کی سیاسی جدوجہد کو دہشت گردی قرار دے کر دبایا جا رہا ہے۔ ہم میڈیا، سول سوسائٹی اور عدلیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان مظالم کو دنیا کے سامنے لائیں اور اسلام آباد میں بیٹھے لواحقین کا ساتھ دیں۔ خاموشی جرم کے مترادف ہے۔”