شال سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 10 نوجوان پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ

 


پنجگور ،نوشکی ( بلوچستان ٹوڈے) مقبوضہ بلوچستان کے علاقہ کیچ سے پانچ شال سے پولیس ملازم و دکاندار، پنجگور سے قابض فورسز نے طالب علم ،ایک دکاندار  جبکہ نوشکی سے نوجوان ڈرائیور کو حراست میں لیکر جبری لاپتہ کردیا ۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز قابض پاکستانی ملٹری ایجنسی آئی ایس آئی کے کارندوں نے شام چھ بجے کے قریب پنجگور فٹبال گراونڈ سے 18 سالہ طالب علم  نذیر احمد ولد صحبت خان سکنہ زہری خضدار حال پنجگور  اور 23 سالہ دکاندار محمد اصغر ولد محمد وارث سکنہ قلات حال پنجگور کو فٹبال کے میدان سے اسلح کے زور پر لوگوں کے سامنے آنکھوں پر پٹی باندھ کر اغوا کرلیا۔

اس طرح قابض پاکستانی فرنٹیئر کور ایف سی نے نوشکی  جمال آباد سے رواں مہینے 25 تاریخ کو گھر پر چھاپہ مارکر 18 سالہ شبیر احمد ولد عبدالسلام  نامی ڈرائیور کو غیر قانونی حراست میں لے کر بعد ازاں لاپتہ کردیا ۔
اس طرح 26 جولائی کی رات 12 بجے کے قریب قابض فورسز محکمہ انسداد دہشتگردی سی ٹی ڈی کے کارندوں  شال کلی اسمعیل سے منگچرکے رہائشی دو بھائیوں پولیس ملازم 24 سالہ شعیب اور 28 سالہ عبدالوہاب پسران دریا خان کو چھاپہ دوران حراست میں لیکر بعد ازاں لاپتہ کردیا ۔

ناصر آباد میں پاکستانی فورسز کی جانب سے آپریشن کے دوران پانچ افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات موصول ہوئےہیں۔

لاپتہ ہونے والوں میں فیروز ولد داد محمد، صغیر ولد داد محمد، ظریف ولد امین، فدا اور جلال بخش شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق مختلف گھروں پر چھاپے مارے گئے جس کے دوران مذکورہ افراد کو لاپتہ کردیا گیا۔

دوسری جانب آج خیرآباد میں بھی گھر گھر چھاپوں کی اطلاعات  ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق پاکستانی فورسز نے متعدد گھروں کی تلاشی لی تاہم کسی قسم کی گرفتاری کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے تینوں نوجوانوں کی جبری گمشدگی کی تصدیق کرتے ہوئے جاری بیان میں انکے بازیابی عدالت میں پیش کرنے کی اپیل کی ہے ۔ اور کہاہے کہ ایک کمسن طالب علم ،ڈرائیور اور دکاندار کو اس طرح لاپتہ کرنا بلوچ نسل کشی کا خوفناک تسلسل ہے ۔
ریاست کی فورسز اور خفیہ اداروں کی اپنی ہی عدالت پر عدم اعتماد سمجھ سے بالا ہے ،اور عدلیہ مقامی انتظامیہ کے منہ پر بھی زوردار طمانچہ ہے کہ فورسز خفیہ ادارے اتنے بےلگام ہیں کہ ان کے حدود میں رہ کر کھلے عام  جو جی میں آیا سرعام  کرکے چلے جاتے ہیں ،کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے ۔
مقامی انتظامیہ اورعدلیہ کی ذمہداری ہے کہ شہریوں کی حفاظت کریں ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post