کوئٹہ ( ویب ڈیسک ) ضلع کیچ کے علاقے گورکوپ سے تعلق رکھنے والی ایک بلوچ خاتون کو پاکستانی فورسز نے جبراً لاپتہ کر دیا۔
ذرائع کے مطابق، روبینہ بلوچ دختر/والد: محب اللہ، عمر 30 سال، جو پیشے کے لحاظ سے ایک سرکاری لیڈی ہیلتھ وزیٹر (LHV) ہیں، کو آج شام چار بجے اوورسیز کالونی، تربت سے ایف سی اور ملٹری انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے اغواء کر کے لاپتہ کر دیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے خاتون کی گمشدگی کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے جبری گمشدگیوں کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر، آج مغرب کے وقت نوشکی کے علاقے مل محمد خان سے تعلق رکھنے والے فٹبالر عزیز احمد عرف میر اے ولد غلام فاروق کو پاکستانی فورسز نے ناکہ بندی کے دوران حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ لواحقین نے ان کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسی طرح تربت
دوسری جانب تربت ، تمپ کے علاقہ گومازی سے بھی ایک اور نوجوان کی جبری گمشدگی کی اطلاع ملی ہے۔
علاقائی ذرائع کے مطابق، محمد رحیم ولد حیدر کو نامعلوم افراد نے بھی سورار کی شام مغرب کے وقت اغواء کردیا ہے جس کے بعد سے وہ بھی لاپتہ ہے۔
دریں اثناءخضدار سے جبری لاپتہ شخص کا نعش بر آمد ہواہے تفصیلات کے مطابق خالد ولد صالح محمد زہری کو 23 مارچ 2025 کی شب 11 بجے پاکستانی فورسز کے اہلکار ان کے گھر واقع زیدی سے حراست میں لے گئے تھے۔ گزشتہ تین ماہ سے ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔ تاہم، گزشتہ روز خالد زہری کی مسخ شدہ لاش کھوڑی زیدی سے برآمد ہوئی۔ ذرائع کے مطابق، انہیں حراست کے دوران قتل کر کے لاش کو ویرانے میں پھینک دیا گیا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کو دورانِ حراست قتل کر کے ان کی لاشیں پھینکنے کا ماورائے قانون سلسلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بلوچ سیاسی و انسانی حقوق کی تنظیمیں اس غیر انسانی رویے کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہی ہیں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں سے بارہا مطالبہ کر چکی ہیں کہ وہ اس سنگین صورتحال کا نوٹس لیں، مگر ریاستی ادارے اب بھی اس سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس میں روز بہ روز شدت آتی جا رہی ہے۔