قومیں سوال اور تنقید (برائے تعمیر) کو رواج دیکر اور برداشت کرکے آگے بڑھتے ہیں جو قومیں اٹھنے والے قومی سوالات و تنقید کا گلہ گھونٹ کر ان کا راستہ روکتے ہیں انھیں کوئی طاقت زوال سے نہیں بچا پاتا ۔ سب جانتے ہیں قومیں افراد سے بنتے ہیں اور افراد مختلف شعبوں میں ارادی غیر ارادی کوئی کردار نبھانے کے بعد نام کماکر کسی حد تک مشہور ہوجاتے ہیں ،یہ مشہوری نیک نامی یا بدنامی دونوں صورتوں میں مل سکتی ہیں۔آپ اگر اجتماعی فائدے کیلے اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں تو آپ کو نیک نامی اگر برائی کیلے صرف کرتے ہیں تو بدنامی کی شکل میں نام کماتے ہیں ۔ لازمی نہیں کوئی فرد اجتماعی مفادات کیلے کام کرنے کے ہمیشہ اچھا ہی رہے یا برا ہمیشہ برا رہے، وقت حالات کے ساتھ وہ بدل جاتے ہیں ،ممکن ہے کوئی ماضی میں نیک نام رہا ہو تو وہ حال اور مستقبل میں بدنام نہ ہو ،نیک نامی بدنامی کے لیبل کسی قوم یا فرد کے عمل سے طے پاتے ہیں ۔
اگر آپ کا عمل اچھا رہے گا تو نام اچھا عمل براہوگا تو نام برا ہی مانا جائے گا ۔
کوئی بھی کامیاب قوم یا فرد اپنے عمل کو پرکھنے کیلے تنقید کو بطور آئینہ استعمال کرتا رہتا ہے ، وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو ،وہ عوام کو مقدس جان کر اپنے آپ کو پرکھنے کسوٹی کے معیار پر اترنے کیلے ان کے پاس جاتاہے ،یعنی وہ عوام کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ تنقید ذریعے آئینہ بن کر اس کے غلط کاموں اور اعمال کی نشاندہی کریں ۔
وہ ہر کسی کو موقع دیتا ہے وہ کھل کر سوال کریں اور جواب طلب کریں،تاکہ وہ اپنا سیدھا راستہ نہ چھوڑے اورکھویا ہوا راستہ تلاش کرسکے ،مثلا اگر وہ پہلے اجتماعی سوچ رکھتے تھے تو اب وہ اس سے کیوں بھٹک گئے ہیں،وہ پہلے ہر چیز میں عوام اجتماع کو اولیت دیتے تھے اب کیوں اپنے حدود محدود کرکے خاندان تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں ،
وہ ترقی لانے،صنعت ،سائنس ،تعلیم عام کرنے ،ہسپتال قائم کرنے ، روٹی کپڑا عام کرنے کی انقلابی باتیں کرتے تھے تو آج عملا وہ ان نعروں سے کیوں پھر گئے ہیں ؟،
وہ پہلے کرپٹ نہیں تھے آج وہ کونسی مجبوریاں راہ میں رکاوٹ بن کر زنجیر بن گئیں جن کی وجہ سے وہ کرپٹ سے کرپٹ بنتے جارہے ہیں ۔
وہ پہلے سب کا مسیحا تھے آج اپنوں کا قاتل کیوں بنا پھرتے ہیں ؟ ۔
وہ منہ میں رام رام بغل میں چھری والے کردار ادا کرنے پر کیوں مسلسل مجبور ہیں ۔
وہ پہلے قومی وسائل کی لوٹ مار کو قوم کی نسل کشی سے تعبیر کرکے کوئی سمجھوتہ کرنے کیلے تیار نہیں تھے آج دو ٹکہ بھتہ وصول کرکے لوٹ مار کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں ، (بھتہ کی رقم بھی اجتماع پر خرچ کرنے بجائے خاندان پر صرف کرنے پر صرف کرنے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں )
وہ دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکنے والے ہر فرد کو برا سمجھ کر انکے کیلے کڑی سزا کا فرمان جاری کرتے تھے آج اپنی ہتھیار پھینکنےوالے قریبی رشتہ داروں کی قدرتی موت پر کیوں ماتم منا کر شہیدوں کے نام پر چندہ کی رقم تعزیت لینے اور لنگر پر خرچ کرتے رہتے ہیں ؟۔
وہ کونسی مجبوریاں ہیں آج جفا کش ساتھی کامریڈوں، انقلابی ساتھیوں کے بچے بھوکوں تڑپ رہے ہیں وہ کروڑوں روپئے اپنے بچوں کی شادیوں پر چوری چھپے اڑا رہے ہیں ۔
کسی بھی شعبہ سے واسطہ شخص میدان میں کھڑا رہ کر ہی وہی کام احسن طریقے سے سرانجام دے سکتا ہے جو قدرتی قانون بھی ہے ،تو کیا وجوہات ہیں کوئی بھی شعبہ کا ہیڈ ہو میدان سے بھاگ کر کرسی چھوڑ کر پھر بھی عوام پر حق جتاتا پھرتا ہے کہ اسکی بات مانی جائے وہ بھی پیارسے یا مار سے ؟
ان جیسے اور بھی بہت سے سوالات ہیں جو تنقید کو رواج دینے سے ہی آشکار ہوجاتے ہیں، جب تک تنقید کو قید کرکے شیشی میں بند رکھا جائے گا اس اس فرد اور سماج کو کوئی بھی تباہی سے روک نہیں سکتا ۔
کوئی ماضی میں آباؤ اجداد سے لغڑی رہا ہے اگر وہ کچھ پیسے منافقت ،چندہ ،غنڈہ گردی ،بھتہ ،منشیات ،بلیک میلنگ سے قوم کا نام استعمال کرکے اکٹھا کر اپنے اور اپنے خاندان پر خرچ کر کے امیر بننے کا دکھاوا کرتا ہے یا ہمارے قسمت میں ہیں کا چورن بیچ رہے ہوتے ہیں تو وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ کیوں کہ
آپ جو اصل میں ہیں وہی ہیں جب یہ مصنوعی پالش اور گند کھوپڑی سےاتر جائے گا تو وہی رہیں گے ۔ اگر نہیں تو آپ عوام اور قوم کی طاقت جبتک تسلیم نہیں کریں گے انھیں سوال اور تنقید کرنے کا موقع نہیں دیں گے لغڑی ہی رہیں گے ۔
سماجی آزادی اور ترقی کیلے ہمیں سوال اور تنقید کے دروازے کھولنے کے ساتھ ساتھ لغڑیوں کو لگام ڈالنا پڑے گا ، اگر نہیں تو زوال سے ہمیں کوئی مائی کا لال نہیں روک سکتا ۔