جامعہ تُربت میں بلوچ طلبہ کا احتجاجی مظاہرہ، تعلیمی حقوق اور بنیادی سہولیات کی بحالی کا مطالبہ



کیچ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) جامعہ تُربت یونیورسٹی میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک) کے زیرِ اہتمام ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں طلبہ نے تعلیمی حقوق، ہاسٹل الاٹمنٹ، اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے آواز بلند کی۔ ریلی کے دوران طلبہ نے مختلف نعرے لگائے، جن میں "کتاب دوستی جرم نہیں"، "بلوچ اسٹوڈنٹس کی پروفائلنگ بند کرو" اور "یونیورسٹی انتظامیہ کی غنڈہ گردی نامنظور" شامل تھے۔

احتجاجی ریلی کے بنیادی مطالبات

1. ہاسٹل الاٹمنٹ کی بحالی:
چند طلبہ کے ہاسٹل الاٹمنٹ کو منسوخ کر دیا گیا ہے، جسے فوراً بحال کیا جائے۔

2. غیر ضروری جرمانوں کا خاتمہ:
یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بعض طلبہ پر 15,000 سے 20,000 روپے تک کے غیر ضروری جرمانے عائد کیے گئے ہیں، جنہیں فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

3. ہاسٹل گیٹ کی 24 گھنٹے دستیابی:
طلبہ کو مشکلات کا سامنا ہے، لہٰذا ہاسٹل گیٹ کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھا جائے تاکہ طلبہ آسانی سے آجا سکیں۔

4. ہاسٹل وزٹ کے اوقات میں نرمی:
اسکالرز اور دیگر تعلیمی شخصیات کے لیے ہاسٹل وزٹ کے اوقات رات 10 بجے تک مقرر کیے جائیں تاکہ تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔

5. سائنس لیبارٹری کی سہولیات میں بہتری:
بیسک سائنسز کے طلبہ کو پریکٹیکل لیب کے لیے ضروری سامان اور جدید سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنی تعلیمی سرگرمیاں بہتر طریقے سے انجام دے سکیں۔

بساک کی ڈیڈ لائن اور آئندہ کا لائحہ عمل

بساک کی قیادت نے یونیورسٹی انتظامیہ کو مطالبات پر عملدرآمد کے لیے دوپہر 2 بجے تک کی مہلت دی ہے۔ اگر مطالبات پورے نہ ہوئے تو طلبہ باقاعدہ پریس کانفرنس کریں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔

احتجاجی رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ اگر مسائل حل نہ کیے گئے تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا اور دیگر طلبہ تنظیموں کو بھی اس تحریک میں شامل کیا جائے گا۔

تعلیم کے حق کی جنگ – طلبہ کی جدوجہد جاری

یہ احتجاج محض چند مطالبات تک محدود نہیں بلکہ بلوچ طلبہ کے تعلیمی حقوق کی وسیع جدوجہد کا حصہ ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ "کتابوں سے محبت جرم نہیں بلکہ ایک مثبت سرگرمی ہے، جسے فروغ دیا جانا چاہیے۔" ان کے مطابق یونیورسٹی کا کام تعلیمی سہولیات فراہم کرنا ہے، نہ کہ طلبہ کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنا۔

یہ مظاہرہ نہ صرف بلوچستان میں تعلیمی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اجاگر کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ اگر طلبہ کی آواز کو نظرانداز کیا گیا تو اس کے خلاف مزید سخت اقدامات کا عندیہ بھی دیا جا چکا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post