مشکے میں فورسز ہاتھوں جبری لاپتہ چار افراد کو ماورائے عدالت قتل، ریاستی دہشت گردی اور بربریت کی بھیانک شکل ہے ۔وی بی ایم پی



شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ آواران کے علاقے مشکے میں پاکستانی فورسز نے جبری گمشدگی کے شکار چار بلوچ نوجوانوں ،کامران علیم، معراج، مومن اسلم اور حفیظ کو ماورائے عدالت قتل کر دیا ہے۔ یہ افراد 28 فروری کی رات کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں دیگر پانچ افراد سمیت جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تھے۔ دیگر پانچ افراد تاحال پاکستانی فوج کی غیر قانونی حراست میں ہیں، جن کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔


انھوں نے کہا ہےکہ بلوچستان اس وقت جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور بلوچ نسل کشی کے ایک خوفناک مرحلے سے گزر رہا ہے۔ پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے منظم پالیسیوں کے تحت بلوچ قوم کی شناخت کو بنیاد بنا کر منظم نسل کشی میں مصروف ہیں۔ جبری گمشدگی، زیرِ حراست قتل اور جعلی مقابلوں میں بلوچ نوجوانوں کا قتل ایک معمول بن چکا ہے، جس نے بلوچستان کو ایک سنگین انسانی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔


ترجمان نے کہاہے کہ ریاستی دہشت گردی کا سب سے لرزہ خیز پہلو ماورائے عدالت قتل ہیں، جہاں پہلے لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے، انہیں بدترین جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور پھر جعلی مقابلوں میں قتل کر کے انہیں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ رواں سال کے صرف دو مہینوں میں درجنوں بلوچ نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے، جو اس بربریت کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔


انھوں نے مزید کہا ہےکہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ لاپتہ کیے گئے افراد میں سے بیشتر کبھی واپس نہیں آتے۔ جو خوش قسمت ہوتے ہیں، وہ یا تو شدید جسمانی اور ذہنی اذیت کے بعد کسی ویران علاقے میں چھوڑ دیے جاتے ہیں، یا پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔

انھوں نے آخر میں  کہا ہےکہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بلوچ نسل کشی پر اپنی مجرمانہ خاموشی توڑیں اور ان مظالم کے خلاف مؤثر آواز بلند کریں۔ اگر اس منظم نسل کشی کو نہ روکا گیا تو یہ نہ صرف بلوچ قوم بلکہ پورے خطے کے لیے تباہ کن نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post