تربت( مانیٹرنگ ڈیسک ) تربت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ گزشتہ رات سول ہسپتال تربت میں ایک طالب علم اور نرسنگ اسسٹنٹ 16 سالہ اسرار بلوچ ولد راشد کو فرنٹیئر کور اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے المناک طور پر گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔
انھوں نے کہاہے کہ تربت کے تحصیل چوک پر ہونے والے المناک بم دھماکے کے نتیجے میں تین راہگیر وسیم اکرم، عامر وسیم اور اسرار راشد زخمی ہوگئے تھے ،جنہیں علاج کے لیے سول ہسپتال تربت منتقل کردیا گیا۔ اسرار بلوچ کو علاج کے دوران سی ٹی ڈی اور فرنٹیئر کور کے اہلکار زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ بعد ازاں اس کے اہل خانہ کو اطلاع ملی کہ اس کی بے جانعش مردہ خانے میں رکھ دی گئی ہے۔
جب لواحقین اس کی نعش لینے گئے تو انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکاروں نے انہیں اسرار بلوچ کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ایک غیر قانونی دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔ خاندان نے اس من گھڑت اور بے بنیاد دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، جس میں ان کے اکلوتے بیٹے اور واحد کمانے والے پر دہشت گرد ہونے کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔ نتیجے کے طور پر، حکام نے دستاویز پر دستخط ہونے تک اس کی نعش حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ کافی مزاحمت کے بعد نعش کو لواحقین کے حوالے کر دیا گیا۔
ترجمان نے کہاہے کہ اسرار بلوچ کو دھماکے کے دوران تعلیمی چوک سے گزرتے ہوئے معمولی زخم آئے تھے۔ تاہم اسے ہسپتال سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ صبح 2 بجے کے قریب جب اس کی نعش کو واپس لایا گیا تو اس پر تشدد کے کئی نشانات تھے جن میں گولیوں کے زخم اور اس کی نعش پاکستانی پرچم میں لپٹی ہوئی تھی۔
انھوں نے کہاہے کہ بی وائی سی اسرار بلوچ کے بیہیمانہ قتل اور اسے دہشت گرد قرار دینے کے بے بنیاد لیبل کی شدید مذمت کرتی ہے۔جو کہ اس کے قتل کو جواز فراہم کرنے کی دانستہ کوشش معلوم ہوتی ہے۔ جائے وقوعہ پر موجود عینی شاہدین نے تصدیق کی ہے کہ واقعہ کے وقت اسرار تعلیمی چوک پر محض راہگیر تھا جو دھماکہ کے وقت دوسرے افراد کی طرح زخمی ہواتھا ۔