حکومتی ادارے دھرنا ختم کرنے کیلےبطور دباؤ پانی اور کھانے کی سپلائی بند کردی ہے، ۔ سیمینار میں دلجان کے لواحقین کا خطاب



آواران ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان ضلع آواران  میں جبری لاپتہ دلجان بلوچ کی بازیابی کے لیے جاری احتجاجی دھرنے کے دسویں روز دھرنا گاہ میں دلجان کے لواحقین نے سیمینار منعقد کیا گیا، جس میں آسیہ  بلوچ  سمی دین بلوچ،  سلطانہ بلوچ، آسیہ بلوچ اور گلزار دوست نے خطاب کیا۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے لاپتہ دلجان بلوچ کے لواحقین میں شریک آسیہ بلوچ نے مقامی انتظامیہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاکہ “ہم پر دباؤ ڈالنے کے لیے پانی اور کھانے کی سپلائی بند کر دی گئی ہے، اور ہمیں جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں لیکن ہم اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں یہ احتجاج ہمارے دلوں کی آواز ہے اور ہم اپنے پیارے کی بازیابی کے لیے آخری دم تک کھڑے رہیں گے۔”

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ ہمارے ساتھ وہ سلوک کر رہی ہے جیسے ہم اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کے مجرم ہوں لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ جدوجہد ایک طویل جنگ کا حصہ ہے، اور ہم اس میں کامیاب ہو کر رہیں گے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما 14 سال سے جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ نے کہا کہ دلجان بلوچ کی گمشدگی بلوچستان میں ایک طویل سلسلے کا حصہ ہے جہاں ہر خاندان کو جبری گمشدگی کا سامنا ہے دلجان جیسے نوجوانوں کو غائب کرکے بلوچ عوام کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے لیکن یہ ظلم ہماری مزاحمت کو مزید تقویت دے رہا ہے۔ بلوچ قوم ہمیشہ اپنے حقوق کے لیے کھڑی رہی ہے، چاہے اس کے لیے ہمیں کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔

انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں کوئی ایسا گھر نہیں جہاں جبری گمشدگی کا درد نہ ہو ہمارے لوگ برسوں سے اپنے پیاروں کی تلاش میں ہیں لیکن ان تمام مظالم کے باوجود ہم نے نہ جھکنے کا عزم کیا ہے اور نہ ہی خاموش رہنے کا۔

اس موقع پر بلوچ ویمن فورم کی رہنما سلطانہ بلوچ نے کہا کہ بلوچ خواتین ہمیشہ اپنے حقوق کے لیے سرگرم رہی ہیں اور آج بھی وہ اپنی زمین، اپنے بچوں اور اپنے قومی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ دلجان بلوچ کی گمشدگی و بلوچستان میں دیگر جبری گمشدگیوں کے جیسے واقعات بلوچ مزاحمت کو کچلنے کی ایک سازش ہے۔
انہوں نے اس موقع پر کہا یہ تحریک خواتین کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ہماری مائیں، بہنیں، اور بیٹیاں اس جدوجہد میں برابر کی شریک ہیں ہم مظالم کا سامنا کر رہے ہیں لیکن ہماری ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی ہم اس تحریک کو جاری رکھیں گے جب تک کہ تمام لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہو جاتے۔

سماجی کارکن گلزار دوست نے کہاکہ آواران کے عوام نے پیدل چل کر سیمینار میں شرکت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ظلم کے خلاف متحد ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے ٹرانسپورٹ بند کرنا اور دیگر رکاوٹیں ڈالنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس احتجاج سے خوفزدہ ہیں لیکن ان کی تمام سازشوں کے باوجود، عوام کی شرکت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا یہ سیمینار صرف دلجان بلوچ کی بازیابی کے لیے نہیں بلکہ پورے بلوچستان میں جاری مظالم کے خلاف ایک پیغام ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دلجان بلوچ کو فوری بازیاب کیا جائے، جھوٹے مقدمات ختم کیے جائیں، اور مظاہرین کو دھمکیاں دینا بند کی جائیں۔
سیمینار کے شرکاء نے متفقہ طور پر کہا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو احتجاجی تحریک کو مزید وسعت دی جائے گی۔ شرکاء نے دلجان بلوچ کی فوری بازیابی، جھوٹے مقدمات کے خاتمے، اور مظاہرین کے خلاف دھمکیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post