مستونگ ،تربت ،مچھ ( مانیٹرنگ ڈیسک) بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے مچھ، تربت اور مستونگ میں قابض پاکستانی فوج کو تین مختلف حملوں میں نشانہ بنایا اور نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے ایک کارندے کو ہلاک کرنے سمیت بی ایل اے کے زیرحراست ملٹری انٹیلجی جنس کے ایک آلہ کار کے سزائے موت پر عمل درآمد کی۔
انھوں نے کہاہے کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے گذشتہ شب بولان کے علاقے مچھ میں پنیر اسٹیشن کے مقام پر قابض پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو ایک حملے میں نشانہ بنایا، سرمچاروں نے سنائپر حملے میں ایک دشمن اہلکار کو ہلاک کرنے کے بعد دشمن کے پوسٹ پر خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں دشمن کو مزید جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
ترجمان نے کہاہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے آج تربت کے علاقے نودز میں قابض پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کی تشکیل کردہ نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے اہم کارندے امان اللہ ولد عبدالحمید کو ہلاک کردیا جبکہ اس کا ایک ساتھی حملے میں زخمی ہوگیا۔
انھوں نے کہاہے کہ دشمن فوج کا آلہ کار امان اللہ 2011 سے قابض فوج کی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ کا حصہ اور ریاستی کاسہ لیس سرغنہ مخبر راشد پٹھان کا ایک اہم کارندہ تھا۔ امان اللہ نودز سمیت شے کہن اور گیبن میں پاکستانی فوج کے ہمراہ گھروں پر چھاپوں، نوجوانوں کو جبری لاپتہ کرنے اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہا ہے جبکہ اس کے بدلے قابض فوج نے اس کو چوری، ڈکیٹی اور منشیات کے کاروبار کی اجازت دے رکھی تھی۔
ترجمان نے کہاہے کہ دشمن آلہ کار امان اللہ نے کیچ کے علاقے نودز میں اپنے کارندوں کے ہمراہ شہید جلال عرف بلوچ کے گھر پر حملہ کرکے چادر و چاردیواری کی تقدس کو پامال کیا تھا، اس کے علاوہ ناصرآباد، شورما کے پہاڑوں میں فوجی آپریشن میں بھی براہ راست ملوث رہا تھا۔ جبکہ امان اللہ کا چھوٹا بھائی شاہد اپنے ساتھی نثار میران کے ہمراہ 2019 میں بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں کے راستے پہ ناکہ بندی کی کوشش میں ہلاک ہوگیا تھا۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے ایک اور کاروائی میں مستونگ کے علاقے اسپلنجی مَرو سے ملنگ کے بھیس میں رہنے والے قابض پاکستانی فوج کے ایک مخبر مجیب الرحمان ولد عبدالرحمان کو چار روز قبل حراست میں لیا تھا۔
دوران تفتیش مجیب الرحمان نے اعتراف کیا کہ وہ پاکستانی فوج کی ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کیلئے دس سالوں سے کوئٹہ، اسپلنجی اور مَرو میں مخبری کا کام سرانجام دیتا رہا ہے۔ مخبر نے مزید انکشاف کیا کہ کوئٹہ منتقل ہونے کے بعد میر زیب قمبرانی کے ذریعے پاکستانی فوج کے پیرول پر مخبری کا آغاز کیا اور بعدازاں عاصم کرد گیلو کی سربراہی میں کام کرتا رہا ہے۔
جیئند بلوچ نے کہاہے کہ مجیب الرحمان نے انکشاف کیا کہ عاصم کرد گیلو کے کہنے پر وہ کوئٹہ سے سلمان قمبرانی اور گزین قمبرانی کی مخبری کرنے کے بعد پاکستانی خفیہ اداروں اور فوج کے ہاتھوں جبری لاپتہ کرنے میں براہ راست ملوث تھا۔
انھوں نے اعتراف کیاکہ 8 جولائی 2015 کو پاکستانی فوج نے کلی قمبرانی سے طالب علم گزین قمبرانی اور سلمان قمبرانی کو جبری لاپتہ کیا تھا اور 14 اگست 2016 کو کوئٹہ کے علاقے ہزارگنجی میں ایک ڈرامائی شکل میں جھڑپ کا نام دیکر گزین قمبرانی اور سلمان قمبرانی کو ایک اور نوجوان کے ہمراہ شہید کیا گیا تھا، جس کی شناخت نہیں ہوسکی۔
مخبر مجیب الرحمان نے بتایا کہ مذکورہ نوجوانوں کی شہادت کے بعد اس کو اسپلنجی میں مخبری کیلئے منتقل کیا گیا، جہاں وہ ایک سال، نو مہینے تک رہا جبکہ بعدازاں اسپلنجی کے علاقے مَرو میں بھیس بدل کر مخبری کا کام کرتا رہا ہے۔ اس نے اعتراف کیا کہ اس دوران گھروں پر چھاپے مارنے اور لوگوں کو جبری لاپتہ کرنے میں ملوث رہا ہے۔
ترجمان نے کہاہے کہ مذکورہ دشمن آلہ کار پر قومی جرائم ثابت ہونے پر بلوچ قومی عدالت نے سزائے موت سنائی، جس پر سرمچاروں نے عملدآرمد کرکے اس کے منطقی انجام کو پہنچا دیا۔
بلوچ لبریشن آرمی مذکورہ تینوں کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ قابض پاکستان فوج اور اس کے آلہ کار و مخبروں کے خلاف ہماری کارروائیاں جاری رہیں گے ۔