کراچی پولیس من گھڑت کیس بناکر میری پرامن سرگرمیوں کو روک نہیں سکتا – ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

 


کراچی( مانیٹرنگ ڈیسک ) کراچی پولیس نے  جبری لاپتہ بلوچوں ،جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے مظلوموں  کے لیے احتجاجی مارچ کی قیادت کرنے  اور بلوچ راجی مچی کا انعقاد کرنے والی معروف سیاسی سماجی رہنماء اور بلوچ یکجھتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے خلاف ملک میں بدامنی پھیلانے کے الزام کے تحت مقدمہ درج کردیا ۔

پولیس نے ایف آئی آر میں ماہ رنگ بلوچ کو نامزد کر کے دعوی کیا ہے کہ وہ ’اپنی ریلیوں میں جھتوں کی شکل میں دہشت گردوں کو شہروں تک لائی ہیں اور وہ باآسانی حساس جگہوں کی ریکی کرتے ہیں اور حملے کرواتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اس حوالے سے سماجی رابطوں کی سائٹ پر کہا ہے کہ کراچی میں میرے خلاف ایک نیا من گھڑت پولیس کیس ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ریاست کی میری پرامن سرگرمی سے بے چینی بڑھ گئی ہے، خاص طور پر ٹائم میگزین کی شناخت کے بعد اس بے چینی میں اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے کہاہے کہ اس طرح کے غیر قانونی، غیر آئینی اور زبردستی کے ہتھکنڈوں سے میری پرامن سرگرمی کو روکا نہیں جاسکتا۔ یہ اقدامات نہ صرف مجھے ہراساں کرنے کے لیے ایک منظم مہم کا حصہ ہیں بلکہ امن و امان برقرار رکھنے میں سیکیورٹی اداروں کی جاری ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لیے ہیں، اس لیے وہ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر ڈالتے رہتے ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ نے کہاہے کہ میری بلوچ قوم ان ایف آئی آرز کا مقصد ہماری اجتماعی جدوجہد کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ تاہم، میں ان جبر کے اقدامات سے پرعزم اور بے خوف ہوں، میری قوم میرے پیچھے پہاڑ کی طرح کھڑی ہے۔ میں اس کا مقدمہ عدالت میں لڑوں گی۔

ماہ رنگ بلوچ کا کہناہے کہ ’یہ سب ہمیں بین الاقوامی سطح پر پہچان ملنے کے بعد ہمیں مقصد سے ہٹانے اور ڈرانے کی ایک بوگس کوشش ہے۔ ‘

انھوں نے کہاہے کہ ’میرا پاسپورٹ چھینے جانے پر میری ایف آئی درج نہیں کی گئی۔ لیکن الٹا مجھ پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ 

 ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ انھیں ٹائمز میگزین کی جانب سے بااثر خواتین میں شامل کیے جانے کی تقریب میں شرکت کے لیے جانے سے روکا گیا۔

ان کے مطابق کراچی ایئر پورٹ پر انھیں پرواز میں سوار نہیں ہونے دیا گیا جہاں پہلے انھیں یہ کہا گیا کہ ان کا ویزہ ویلڈ نہیں تاہم بعد میں بتایا گیا کہ انھیں سفر کی اجازت نہیں۔

انکا کہنا تھا مجھے بغیر کوئی وجہ بتائے سفر کرنے نہیں دیا گیا، بعدازاں پولیس و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے انتہائی غیر انسانی رویہ اپنایا اور میرا پاسپورٹ اور موبائل فون چھین لیا گیا جبکہ میں ایف آئی آر درج کرنے گئی تو ایف آئی آر بھی درج نہیں کی گئی۔

اپنے خلاف ایف آئی آر پر ردِ عمل میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل سے بات کرتے ہوئے ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ایسا تمام سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو دیوار سے لگانے کے لیے کیا جاتا ہے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post