قومی آزادی کی تحریک کا مقصد عظیم ہے، مگر اس کے لیے جس قسم کی انفرادی پارٹیوں یا تنظیمی ڈھانچوں پر انحصار کیا جا رہا ہے، وہ ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔ انفرادی طور پر کی جانے والی سکیمیں یا منصوبہ بندی نہ صرف ناکام ہیں بلکہ وقت اور وسائل کے ضیاع کا باعث بن رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ انفرادیت پسندی ہے، جو ان حلقوں میں سرایت کر چکی ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی جدو جہد سائنسی بنیادوں پر استوار ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ انفرادی پارٹیوں پر مبنی تحریک قومی ضروریات کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔
انفرادی بنیادوں پر چلنے والی تحریکیں قوم کی اجتماعی طاقت کو اکٹھا کرنے میں ناکام ہیں۔ عوام کی حمایت، خواہ وہ مالی ہو، ذہنی ہو یا عملی، تحریک کو حاصل نہیں ہو رہی۔ انفرادی جذباتی تقاریر سے اگرچہ کچھ افراد کو متاثر کیا جا سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تنظیموں کو نوجوانوں کی قربانیوں کے سوا باقی عوام کی جانب سے کوئی خاص حمایت نہیں مل رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تنظیمیں عوامی اعتماد کھو چکی ہیں۔
تحریک کا جغرافیائی اور آبادیاتی تناظر
اگر ہم انفرادی یا مختلف تنظیمی منصوبہ بندی کے بجائے وسیع تر قومی حکمت عملی پر غور کریں تو ہمارے سامنے سات لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا بلوچستان ہے، جس کی آبادی تقریباً 60.5 ملین ہے۔ اس تناظر میں بلوچ قوم دنیا کے بڑے اقوام میں شمار ہوتی ہے۔ اگر تحریک کی منصوبہ بندی اس جغرافیائی پھیلاؤ اور آبادی کے تناسب سے کی جاتی تو تحریک کو درکار وسائل اور حمایت حاصل کرنا ممکن ہوتا۔ لیکن ہمیں اپنی قومی طاقت کا ابھی تک درست ادراک نہیں ہو سکا۔
یہی حال ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران بھی تھا۔ 40 کروڑ کی آبادی کو صرف 44 ہزار انگریزی فوجی اپنے قابو میں رکھے ہوئے تھے۔ اگر ہم اس سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی قومی طاقت کا درست استعمال کریں تو آزادی کی تحریک کی راہیں آسان ہو سکتی ہیں۔
مشترکہ قومی قیادت کی ضرورت
قومی آزادی کی تحریک کی کامیابی کے لیے سب سے اہم ضرورت ایک ایسی مشترکہ قومی قیادت ہے، جسے قوم کی مکمل نمائندگی کا مینڈیٹ حاصل ہو۔ اس قیادت کو عالمی سطح پر اپنے کیس کو اعتماد کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ آج کی انفرادی پارٹیوں اور تنظیموں کی موجودگی میں تحریک کا قومی مینڈیٹ تقسیم ہو چکا ہے۔ اس طرح نہ تحریک اپنی معاشی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے، نہ ایک مضبوط قومی عسکری ادارہ تشکیل دے سکتی ہے، اور نہ ہی سفارت کاری یا انسانی حقوق کے دفاع کے لیے کوئی مؤثر قدم اٹھا سکتی ہے۔
دنیا ابھی تک بلوچ قوم کی آواز سننے کے لیے تیار کیوں نہیں ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری صفوں میں اتحاد نہیں ہے۔ دنیا کے اپنے معیارات اور اصول ہوتے ہیں۔ جب تک ہم اپنی داخلی صفوں کو درست نہیں کریں گے، دنیا ہماری حمایت کے لیے تیار نہیں ہو گی۔
عسکری اور سفارتی محاذ
دشمن کو دو محاذوں سے تکلیف پہنچائی جا سکتی ہے۔ ایک عسکری مزاحمت اور دوسرا سفارت کاری۔ ان دونوں محاذوں کو کامیابی سے استعمال کرنے کے لیے ایک مشترکہ قومی قیادت کی ضرورت ہے، جو بدقسمتی سے انفرادی تنظیموں کی ترجیحات کی وجہ سے اب تک تشکیل نہیں دی جا سکی ہے۔
تاریخی سبق: ہندوستان کی مثال
ہندوستانی سیاستدان پروفیسر سوامی سبرامنیم کی تحقیق کے مطابق، 1857 کی پہلی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد یہ واضح ہوا کہ برطانوی افواج کی تعداد صرف 44,000 تھی جبکہ ہندوستان کی آبادی 40 کروڑ تھی۔ اس کے باوجود ہندوستانیوں نے برطانوی تسلط کو برداشت کیا۔ ایک انگریزی مصنف نے لکھا کہ جب رابرٹ کلائیو نے پلاسی کی جنگ جیتی اور مرشدآباد میں فتح کا جشن منایا، تو پانچ لاکھ لوگوں نے سڑک کے دونوں طرف اسے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ مصنف نے لکھا کہ اگر ان لوگوں نے پھولوں کی جگہ پتھر پھینکے ہوتے، تو تاریخ مختلف ہو سکتی تھی۔ آخر کار، 1946 میں بحریہ کی بغاوت اور بوس کے مقدمے کے بعد برطانوی حکومت کو یہ احساس ہو گیا کہ وہ اب ہندوستان پر حکمرانی جاری نہیں رکھ سکتے۔
نتیجہ
آج بلوچ قوم کو بھی اسی قسم کی اجتماعی قیادت اور عوامی بیداری کی ضرورت ہے۔ تحریک کو کامیابی کی راہ پر ڈالنے کے لیے انفرادی تنظیموں اور جماعتوں کے بجائے ایک مضبوط قومی قیادت کا قیام ضروری ہے، تاکہ قومی اتحاد اور اعتماد بحال ہو سکے اور دنیا کے سامنے مؤثر طریقے سے اپنی آواز پہنچائی جا سکے۔
(شکریہ ہمگام نیوز )