مستونگ: 2000 سے میرا بیٹا مصطفی جبری لاپتہ ہے بھائی کے بازیابی کیلے آواز اٹھانے والے دوسرا بیٹا فقیر لاپتہ ہوا بعد ازاں قتل کیاگیا – بی بی فاطمہ



مستونگ ( پ ر ) مستونگ کے رہائشی بی بی فاطمہ نامی خاتون  نے  جاری بیان میں کہا ہے کہ میرا بیٹا غلام مصطفی واپڈا میں ملازم تھا سن 2000 میں جب فوجی حکومت کے دوران فوج واپڈا میں آئی تو میرے بیٹے کے ساتھ فوجی اہلکاروں نے بدتمیزی کی اور لڑائی بھی کیا، لڑائی کے بعد میرے بیٹے غلام مصطفی کو درینگڑھ ٹرانسفر کیا گیا ایک مہینہ میرا بیٹا درینگڑھ میں ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا جب اس کا ایک مہینہ پوری ہوا تو وہ ڈیوٹی سے چھٹی کر کے اپنی تنخواہ لینے گیا اور اپنا تنخواہ لے کر گھر آیا اور تنخواہ مجھے دے دی جبکہ اپنے جیب کے لیے خرچہ اٹھایا۔

انہوں نے کہا ہےکہ کچھ دن کے بعد جب اس کی چھٹیاں ختم ہو گئیں تو وہ اپنے ڈیوٹی کے لیے روانہ ہو گیا اسی دن سے لے کر آج تک میرا بیٹا واپس گھر نہیں لوٹا۔

 ابھی اس کو 24 سال ہو رہے ہیں تاحال اس کا کوئی حال واحوال نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے زندہ ہے بھی کہ نہیں؟

بی بی فاطمہ نے کہاہےکہ  میرے دوسرے  بیٹے شہید فقیر محمد عاجز جس کی ڈیوٹی کیڈٹ کالج مستونگ میں تھا، جو اپنے بھائی کے بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے ، 2010 میں انھیں کیڈٹ کالج ایف سی چیک پوسٹ مستونگ سے پاکستانی فورسز نے اٹھا کر لاپتہ کر دیا اور ایک مہینے کے بعد  اس کا نعش  غنجہ ڈوری مستونگ میں پھینکا گیا ۔ اسطرح میرا برسرروزگار بیٹا بھی شہید ہوگیا جو اپنے بھائی کے لیے انصاف مانگ رہا تھا اور اس کی بازیابی کے لئے جدوجہد کررہا تھا۔



 

Post a Comment

Previous Post Next Post