دونوں خطے وسائل سے مالا مال ہیں جن کا مقامی آبادیوں کو بہت کم فائدہ پہنچ رہا ہے ان خیالات کا اظہار رحیمہ محموت نے بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کی پانچویں بلوچستان بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہاکہ تاریخ میں آمروں اور جابروں کے مظالم اور حربوں میں نمایاں مماثلتیں ہیں۔ سیاسی کارکنوں اور اسکالرز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بلوچ اور ایغور عوام کے مشترکہ جدوجہد پر زور دیا ، چین کی جانب سے ایغوروں کی جاری نسل کشی اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے بلوچستان کے استحصال کے درمیان مماثلت بیان کی۔
’’ میں نے اپنا ملک 1997 کے بعد سن 2000 میں چھوڑا اور تب سے میں جلاوطن ہوں۔ 2017 سے، میں واپس نہیں جاسکا اور میرا اپنے خاندان سے بات کرنے پر پابندی ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ میں نے اپنے لوگوں کے ساتھ کس درد اور تکلیف کو برداشت کیا ہے۔‘‘
انھوں نے کہاکہ سی پیک ایک ایسا منصوبہ ہے جسے اکثر چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے سراہا جاتا ہے۔ تاہم، انھوں نے سامعین کو اس کے پوشیدہ خطرات کے بارے میں خبردار کیا، خاص طور پر بلوچستان میں استحصال، نقل مکانی، اور ماحولیاتی تباہی کو آگے بڑھانے میں اس کا کردار، یہ سب کچھ چین کے فائدے کے لیے ہے۔
انھوں نے کہاکہ سی پیک بنیادی طور پر چین کے مفادات کے لیے ہےجس نے پاکستان کو گہرے معاشی انحصار میں دھکیل دیا ہے، بلوچستان جیسے خطوں کو ان کی قدرتی دولت کے باوجود پسماندہ رکھا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مشرقی ترکستان (جسے چین سنکیانگ کہتا ہے) پر چین کا قبضہ اور بیسویں صدی کے وسط میں بلوچستان پر پاکستان کے نوآبادیات قبضے میں مماثلتیں ہیں۔ دونوں خطے وسائل سے مالا مال ہیں لیکن ان سے مقامی آبادیوں کا بہت کم فائدہ دیکھا گیا ہے، کیونکہ ان کی زمینوں کا ان کی مرکزی حکومتیں استحصال کرتی ہیں۔ مشرقی ترکستان میں اویغوروں کی نسل کشی ہو رہی ہے اور انھیں بڑے پیمانے پر حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ 2014 سے لے کر اب تک دس لاکھ سے زیادہ اویغوروں کو قید کیا گیا ہے، چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ( بی آر آئی) غلبہ حاصل کرنے کے وسیع ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کا سی پیک ایک اہم جز ہے۔
رحیمہ محموت نے کہاکہ نسل کشی صرف اویغوروں کی جانب سے اپنی زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرنے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ چین کے وسیع عزائم کے بارے میں ہے.‘‘ محموت نے کہا، بذریعہ بی آر آئی عالمی غلبہ حاصل کرنے کے چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے وژن نے ایغور لوگوں اور بلوچوں پر براہ راست اثر ڈالا ہے ، یہ دونوں خطے کے لوگوں کی جدوجہد کو آپس میں جوڑتا ہے۔
انھوں نے مشرقی ترکستان میں نظر آنے والی تباہی کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ سی پیک کے نتیجے میں بلوچستان کو درپیش ماحولیاتی اور سماجی نقصانات کا بھی جائزہ پیش کیا۔ ’’ مقامی لوگ ترقی کی آڑ میں چینی کمپنیوں کے ہاتھوں اپنی زمینیں اور ذریعہ معاش کھو رہے ہیں‘‘ ، انھوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور بلوچ عوام کی مزید پسماندگی کا باعث بنی ہے، بالکل اسی طرح جیسے چینی استحصال سے ایغوروں کی زمینیں چھین گئیں۔
محموت نے بلوچوں، ایغوروں اور تبتیوں جیسی مظلوم اقوام کے درمیان اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا، ’’ ہمارا مشترکہ دشمن ہیں۔‘‘ انھوں نے ظالم حکومتوں سے لڑنے کے لیے تعاون کی ضرورت پر روشنی ڈالی جن کے زمین اور وسائل کا استحصال جاری ہے ، انھوں نے کہا بین الاقوامی برادری کو ان باہم جڑی ہوئی جدوجہد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
اپنے اختتامی کلمات میں، انھوں نے چین کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ان خلاف ورزیوں میں پاکستان کے ملوث ہونے پر احتساب کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا، ’’ اکیلے جدوجہد کرنے سے، ہماری آوازیں کمزور ہو سکتی ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہم متحد ہو جائیں تو ہم زیادہ مضبوط ہوں گے۔‘‘
آپ کو علم ہے رحیمہ محموت ایغور انسانی حقوق کی کارکن، مترجم، اور گلوکارہ ہیں۔ انھوں نے ایغوروں کے خلاف جاری نسل کشی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور متاثرین کے ساتھ مل کر کام کیا ہے، بشمول ایغور ٹریبونل میں پیش کی گئیں گواہان کی مترجم کی حیثیت سے۔ رحیمہ اسٹاپ اویغور جینوسائڈ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ورلڈ ایغور کانگریس کی یوکے ڈائریکٹر، اور بین الپارلیمانی اتحاد آن چائنا (آئی پی اے سی ) کی مشیر کے طور پر کام کرتی ہیں۔