بلوچستان کے ضلع مستونگ سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ ہونے والے طالب علم ارشاد اور شاہ نواز تاحال بازیاب نہیں ہوسکے۔
طالب علم ارشاد احمد کے لواحقین نے کہا ہے کہ ان کو مسلح افراد نے 16 اگست کی رات مستونگ میں ان کے گھر سے اٹھا کر لے گئے تھے ،جن کا تاحال کوئی سراغ نہیں ہے ۔
دریں اثنا جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ نے کہا ہے کہ شاہ نواز سرپرہ کی جبری گمشدگی کی تفصیلات انکے اہلخانہ نے تنظیم کو فراہم کردی ہے ۔
انہوں نے تنظیم سے شکایت کی کہ شاہ نواز ولد نور بخش سکنہ کردگاپ کو فورسز نے رواں سال 4 اپریل کو عبدالغنی کےساتھ منگچر بازار سے جبری لاپتہ کردیا دس دن کے بعد عبدالغنی بازیاب ہوگئےل یکن شاہ نواز تاحال لاپتہ ہے۔
علاوہ ازیں 27 جون 2024 کو پاکستانی خفیہ اداروں اور سی ٹی ڈی کے ہاتھوں شال سے لاپتہ ظہیر احمد بلوچ ولد حاجی ڈاکٹر عبداللہ تاحال بازیاب نہیں ہوسکے۔
آپ کو علم ہے لواحقین کی طرف سے ظہیر احمد کے بازیابی کےلئے 15 دن تک متواتر احتجاج کے بعد حکومت’ لواحقین اور بی وائی سی کے درمیان معاہدہ ہوا تھا اور ظہیر احمد کی بازیابی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جو حکومتی اراکین ‘ لواحقین اور بی وائی سی کے عہدیداران پر مشتمل تھی۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ حکومتی اراکین کی طرف سے دی گئی 15 دن کے ڈیڈ لائن کو ایک مہینے گذرنے کے باوجود بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی اور ظہیر احمد بلوچ تاحال لاپتہ ہے۔
انہوں نے کہا ہےکہ حکومتی کمیٹی کے اراکین ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں اور ظہیر احمد بلوچ کو بازیاب کرنے میں سنجیدہ نہیں اور نہ ان کے پاس کوئی اختیار ہے اور وہ محض وقت گزاری کر رہے ہیں –
انہوں نے کہا کہ ظہیر احمد بلوچ کی بازیابی کےلئے کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے لواحقین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ جلد ہی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کرینگے اور پُرامن احتجاج کے تمام ذرائع استعمال کرینگے اور اس کے علاوہ انسانی حقوق کے عالمی و علاقائی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ظہیر احمد بلوچ کے بازیابی کےلئے آواز اٹھائیں۔