بلوچستان میں مذھب کی آڑ میں ستم ظریفی اور دین اسلام کو ظلم کے طول دینے کے لیے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرنا افسوس بالائے افسوس اس پر کہ مسلمان ہوکر اللہ کے دین کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا 47 اور 48 میں جبری ریاستی تسلط قائم کرکے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جھوٹے جھوٹے خواب بیان کرتے رھے حالانکہ خود خان آف قلات کی آغوش میں پرورش پانے والے فرزند آغا موسی جان فرماتے ھیں کہ میرے والد کو کوئی ایسا خواب نظر نھیں آیا یہ سرا سر بھتان ھے ۔ ان خیالات کا اظہار بلوچ عالم دین مفتی راشد قمبرانی نے جاری بیان کیا ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ جب قلات میں فوج کشی ھوتی ھے سب سے پہلا نشانہ شاھی مسجد بن جاتی ھے جو آج تک اپنا زخم نھیں بھرنے دیتی ، جب ریاستی مظالم کے خلاف مزاحمتی طور پر نواب نوروز خان اور اس کے دوست پہاڑوں پر جاتے ہیں
تو قرآن دکھا کر یہ عہد دیا جاتا ہے کہ ھم تمھیں نقصان نھیں دیں گے ھمارے اور تمہارے درمیان قرآن پاک ھے ۔ پہاڑوں سے اترنے پر انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے
اور پھانسی تک چڑھا دیا جاتا ہے ،
یعنی ریاست کی طرف سے قرآن پاک کی تاریخی بے حرمتی ھوتی ھے ۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچستان ایک سادہ لوح مسلمان اسٹیٹ رھی ھے ، ضیاء دور میں مذھبی ہتھکنڈے سے مختلف طریقوں سے شدت پسندی کو فروغ دینے کی کوششیں ھوتی رھی ۔پھر سے 2000 کی دھائی میں مختلف مذھبی مشینری چلانےکی کوششیں ھوتی رھی
مذھبی فسادات کرانے کی کوشش ھوتی رھی ، مذھب کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے جھنگ میں جنم پانے والی جماعت کو بلوچستان میں مذھبی مشینری چلاکر فسادات برپا کئے گئے ، تاکہ دنیا کو دکھا دیا جائے کہ بلوچستان میں مذھبی تشدد اور جنونیت ھے ، ہر طبقہ کے علماء ریاستی سرپرستی میں قتل کیے گئے
اور دنیا کو دکھاتے رھے کہ بلوچستان میں مذھبی جنونیت ھے تاکہ بلوچستان کی مظلومیت کی آواز کو مذھبی جنونیت کی گندگی میں دبایا جاسکے ، مگر عوام ہر حربہ کو سمجھ چکے تھے ۔
یہ سلسلہ 10 کے دھائی میں مزید بگڑتی رھی اور گزشتہ سال یہاں تک کہ سانحہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مستونگ میں تاریخی نسل کشی کی گئی
اور اس واقعہ سے بھی دو فائدے اٹھانا چاھا ، ایک یہ کہ مختلف مسالک میں فسادات برپا کیا جائے اور ساتھ ساتھ بلوچ نسل کشی والا کام مسالک کی آڑ میں ہو، جبکہ دوسری بات یہ کہ بڑی تعداد میں نسل کشی کے مذموم مقاصد حاصل کئے جائیں ۔ ریاستی مشینری بلوچستان میں مذھبی منافرت کے لیے بہانے کی تلاش میں ھمیشہ رھتی ھے ۔
مفتی راشد قمبرانی نے کہاہے کہ راچی مچی کے دوران گوادر میں مساجد پر بمباری کی گئی جبکہ گزشتہ دنوں ایک مظلوم بہن ڈاکٹر صبیحہ کی ایک چھوٹی سی سبقت لسانی کو آسمان تک پہنچانے کی کوشش کی گئی اور پست ذھنیت کے چند لوگوں کو اس مشن پر کام کرنے کے لیے لگایا گیا کہ وہ عوام میں بلوچ حقوق کی امن پسند تحریک کو بدنام کریں
مگر ڈاکٹر صبیحہ نے بروقت ایک علمی فکری تحریر کے ذریعہ ایک سنجیدہ پیغام دیاجوکہ عقل مندوں کے سمجھنے کے لئے ایک کافی شافی تحریر ھے۔
اس کے بعد بھی جنونیت میں ڈوبے لوگ حیلے بہانے کرتے رھے لیکن عوامی ماحول نے انھیں ناکام اور خاموش کرادیا ۔
انھوں نے کہاہے کہ الحمد للّہ تعالیٰ اب بلوچستان کی مظلوم عوام سمجھ چکی ھے کہ فرقہ وارانہ فسادات قبائلی فسادات لسانی گروہ بندیاں یہ سب ریاستی چالیں ہیں ۔ اپنے ظلم و جبر کو مزید طول دینے کے لیے ریاست کا مزید مذھبی کارڈ نھیں
چلے گا اب عوام سنجیدہ بھی ھے اور ھر سازش کو سمجھتی ھے۔
انھوں نے عوام اور علماء سے سنجیدہ رھنے کی اپیل کی ہے ۔