بلوچستان، طوفانی بارشوں سے بڑے پیمانے پر تباہی، رابطہ سڑکیں منقطع ، حب، ساکران، گڈانی اور مضافات میں موسلا دھار بارش، نکاسی آب کا ناقص نظام، امراض پھیلنے لگے۔



 بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے ، دکی ریلے میں ایک شخص گاڑی سمیت بہہ گیا، اور جھل مگسی، لورالائی، قلات، خضدار، قلعہ سیف اللہ، بولان، ہرنائی، حب، کچھی، زیارت اور کوئٹہ میں بارشیں سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور کئی مکانات تباہ ہو گئے۔صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی کے مطابق جھل مگسی میں شدید بارشوں سے مختلف دیہاتوں میں کچے مکانات منہدم اور رابطہ سڑکیں منقطع ہو گئیں جبکہ لورالائی، زیارت اور کوئٹہ میں بھی بارشوں نے تباہی مچادی۔رپورٹ کے مطابق سیلابی ریلوں کے باعث جھل مگسی سے گنداوہ تک شاہراہ بہہ گئی جبکہ بارشوں کے بعد سگھڑی پل میں شگاف پڑنے کے بعد ضلعی انتظامیہ اور پی ڈی ایم اے نے الرٹ جاری کردیا اور شگاف کو ٹریکٹر کے ذریعے بھرنے کا سلسلہ جاری ہے۔


ضلع کچھی و بولان میں طوفانی بارشوں کے سبب بیشتر دیہات زیر آب آگئے اور بولان میں ریلہ گھروں میں داخل ہونے سے شہریوں کا قیمتی سامان بہہ گیا۔


پی ڈی ایم اے کے مطابق بولان میں این ایچ اے نے بولان میں سیلابی ریلے میں بہہ جانے والی قومی شاہراہ این۔65 پر ٹریفک بحال کردیا جبکہ لورالائی میں وقفے وقفے سے جاری بارشوں سے متعدد مکانات منہدم ہو گئے۔تورخیزی ڈیم کے قریب ریلے میں پھنسے ہوئے ایک ہی خاندان کے سات افراد کو ریسکیو کرلیا گیا۔


ڈپٹی کمشنر میران بلوچ نے بتایا کہ ندی میں ریلہ آنے کی وجہ سے ایک ہی گھر کے اندر سات افراد پھنس گئے تھے لیکن تمام شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے۔ضلعی انتظامیہ نے بتایا کہ قلعہ سیف اللہ میں جاری بارشوں سے کچے مکانات کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ مقامی چیک ڈیم بھر گیا جس کے سبب شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا۔


پی ڈی ایم اے کے مطابق یکم جولائی سے اب تک ہونے والی بارشوں، آسمانی بجلی اور ریلوں سے 29 افراد جاں بحق ہو گئے جن میں ایک خاتون اور 17 بچے شامل ہیں جبکہ 15 افراد زخمی بھی ہوئے۔


رپورٹ کے مطابق اس دوران 853 مکانات مکمل اور 13 ہزار 896 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ اب تک طوفانی بارشوں سے بلوچستان بھر میں مجموعی طور پر 1 لاکھ 9 ہزار 603 افراد متاثر ہوئے ہیں۔


سیلابی ریلوں سے 7 پل اور 41 کلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا جبکہ 372 مال مویشی ہلاک اور 58 ہزار 800 ایکڑ پر محیط فصلیں تباہ ہو گئیں۔


پی ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان میں طوفانی بارشوں کا تیسرا اسپیل جاری ہے جو 31 اگست تک برقرار رہے گا۔


ادھر  حب شہر سمیت مضافاتی علاقوں ساکران اور گڈانی میں گزشتہ تین دنوں سے ہلکی بارش کے بعد جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات گئے تیز موسلادھار بارش اور جمعہ کے دن بھی وقفے وقفے سے جاری ، ہلکی بارش کے بعد معمولات زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں ۔


گزشتہ رات گئے ہونے والی بارش سے قبل ہی ہلکی بارش جبکہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات ہونے والی بارش کے بعد حب شہر کے قریب بھوانی کے مقام پر کوئٹہ کراچی شاہراہ زیر آب آگئی ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے ۔


 اسی طرح سے حب شہر کے نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں سڑکیں گلیاں کیچڑ سے بھر چکی ہیں اور مختلف علاقوں میں بارش کا پانی تالاب بن کر کھڑا ہے شہری علاقوں میں سیوریج کے مین ہولز ابل رہے ہیں جسکی وجہ سے شہریوں کا گھروں سے باہر نکلنا محال ہو کر رہ گیا ہے ۔


حب شہر میں نکاسی آب کے حوالے سے اوپن ڈرین سسٹم کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی بارش کے کھڑے پانی کے اخراج کیلئے ابھی تک کوئی بندوبست ہو سکا ہے گلی محلوں میں کھڑابارش پانی مچھروں کی افزائش نسل کا باعث چکا ہے جسکی وجہ سے پورے شہر میں ملیریااور ڈینگی بخار وبائی صورت اختیار کرچکا ہے اور ان امراض سے متاثرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔


دوسری جانب محکمہ موسمیات نے سمندری طوفان کا الرٹ بھی جاری کردیا ہے جس سے مزید طوفانی بارشوں کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے لیکن حب ساکران گڈانی اور وندر ڈام سونمیانی کے علاقوں میں حب کی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ابھی تک رین ایمرجنسی کے حوالے سے کوئی اقدام سامنے نہ آسکا ہے انتظامی افسران اپنے دفتروں تک محدود ہیں ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے حب ڈیم میں مزید پانی کی 1فٹ پانی کی گنجائش رہ جانے کی خبر سامنے آئی ہے اور مزید بارشوں کی صورت میں ڈیم کے اسپیل وے سے پانی کے حب ندی میں اخراج کا عندیہ دیا گیا ہے ۔


اس صورتحال میں حب ندی مہندم پل کا NHAکا بنایا گیا متبادل راستہ پہلے ہی معمولی بارش کے ریلے کی نذر ہو چکا ہے جبکہ دوسرے کچے اور ناہموار راستے سے ندی میں پانی کے اخراج کے بعد طغیانی کی صورتحال میں وہ راستہ بھی بند ہونے کے خدشات کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا سکتا اسی طرح سے حب کے مضافاتی علاقوں اور بالخصوص قومی شاہراہ کے اطراف میں قائم ہونے والی ہاﺅسنگ سوسائٹیز اور تجارتی مراکز کے سبب قدرتی آبی گزر گاہوں کے راستے بند ہونے سے نہ صرف نقصان کا اندیشہ ہے بلکہ کئی مضافاتی علاقوں کا شہروں سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہونے کے خدشات ہیں ۔


 حب انتظامیہ صرف سوشل میڈیا پر فوٹو سیشن اقدامات کے تحت اپنی واہ واہ کرانے میں مصروف عمل ہے اور اوپر بالا اتھارٹیز کو مطمئن کیا جارہا ہے جبکہ زمینی حقائق ان فوٹو سیشن اقدامات کے برعکس ہیں شہر میں ملیریا اور ڈینگی بخار کی وبا پھیل چکی ہے دو ہفتے قبل ڈینگی کے حملے میں دو بچے جان کی بازی ہار گئے لیکن اسکے باوجود ابھی تک نہ تو ضلعی انتظامیہ اور نہ ہی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کوئی اقدامات سامنے آسکا ہے نہ مچھر مار اسپرے کیا جارہا ہے اور نہ ہی متاثرہ علاقوں سے نکاسی آب کا کوئی بندوبست کیا جارہا ہے۔


 اسی طرح سے حب شہر میں بجلی کا نظام پہلے ہی درہم برہم ہے لیکن حالیہ معمولی بارشوں کے دوران اس میں مزید پیچیدگیاں آگئی ہیں ہلکی بوندہ باندی کی صورت میں بھی کئی کئی گھنٹے پورے شہر کا بلیک آﺅٹ کردیا جاتا ہے جس سے بالخصوص رات کے وقت شہر یوں کو شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post