کیوں نہ جانے دنیا کا یہ دستور بنایا گیا ہے کہ عوام جس کے پیچھے ہو وہ اصل طاقت نہیں ہے ،بلکہ اس کے مقابل بندوق بارود والے ہی طاقتور ہیں ، اگر ہم پریکٹیکلی دیکھیں تو یہ حقیقت ہے کہ عوام ہی اصل طاقت ہے ، بندوق بارود توپ چلانے والوں کا تعلق بھی عوام ہی سے ہے ۔ اگر عوام چاہئے تو آپ بندوق اٹھا سکتے ہیں اگر نہیں چاہیں تو آپ اسے چھو بھی نہیں سکتے ۔
اگر ہم عوامی طاقت کی اور تشریح میں جائیں جو نادان نام نہاد لیڈر عوام کے کندھے پر چڑھ کر فلاں خان بنتے ہیں، انھیں یہی بھوکی اور ننگے پاوں چلنے والی عوامی طاقت ہی ، اعلی سے اعلی عہدے تک پہنچاتی ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عوام ہی وہ جڑ ہے جس کی وجہ سے آپ کسی بھی اعلی منصب پر پہنچ سکتے ہیں۔
اس لیے ہر کسی منصب دار اعلی سے اعلی کرسی پر بیٹھ کر دنیاوی عیش آرام کی زندگی گزارنے والوں کو عوام ہی کا احسان مند ہوکر ہرلمحے اس کے فیصلے کا احترام کرنا چاہئے ۔
ہم بلوچ سماج بارے اگر مطالعہ کریں تو بھی وہی قانون قاعدہ ہے جو دیگر اقوام کے لیے لازم ہے ۔
بلوچ عوام جس راستے کا انتخاب کرنا چاہئیں ہمیں اس کا احترام کرنا چاہئے ، عوام جنگ کے ذریعے حقوق یا امن زریعے چاہتے ہیں دونوں صورتوں میں اس کا فیصلہ اٹل ماننا چاہئے ۔
اگر عوام امن سے جہد کرنا چاہتی ہے تو اس پر جنگ مسلط کرکے کامیابی نصیب نہیں ہوسکتی کیوں کہ عوام چاہتی نہیں کہ جنگ ہو ۔ اس لیئے عوامی فیصلے کو اولیت دیکر اس کے مطابق قدم اٹھانا چاہئے چاہے امن یو یا جنگ تب کامیابی کا راستہ مختصر اور کم جانی مالی خطرہ ثابت ہوگا ۔
عوامی فیصلے کے برعکس مٹھی بھر لوگ فیصلہ کریں گے تو یہ دیر پا کامیاب نہیں ہوگا ہاں ان مخصوص گروہ گروپ کے افراد مالی فائدہ حد سے زائد اور حد سے زائد نقصان اٹھانے کے باعث ہونگے ، اب یہاں کوئی یہ کہےکہ ہمیں صرف مالی فائدہ ہی ملے تو یہ سوچ بچگانہ اور احمق پن سے بھرپور ہوگا وہ جتنا موٹا خاندانی فائدہ اٹھائیں گے اتنا نقصان اٹھانا ان خاندانوں کا مقدر بن جائے گا۔
اگر کوئی خلوص نیت سے چاہتا ہے کہ تحریک جہدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو تو اسے عوام سے فیصلہ لینا ہوگا کیوں کی عوام ہی اصل سرچشمہ ہے ، وہ وقت اب نہیں رہا جو یہ کہیں کہ عوام تو خالی سر ہیں ، انھیں بس ہانکا جائے یہ سوچ فرسود ہوچکا ہے ۔
یہ بات ہوتی تو بلوچستان اور بلوچ عوام پر پاکستانی فوج پچھلے 76 سالوں سے بندوق کے زور پر حکومت کر رہی ہے ، نسل کشی کیلے کونسے راستے نہیں اپنا ئے جبری گمشدگی ،مسخ نعشیں ، مگر نتیجہ کیا نکلا آج بلوچ راجی مچی کی شکل میں عیاں ہے کہ عوام نے ظلم کے سامنے سرخم نہیں کیا ہے ۔
کسی نے نہیں سوچا ہوگا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی جو ایک بلوچ خاتون کی مزاحمت سے شروع ہوئی ، اتنا جلدی تناور دخت بنے گا ۔
دشمن تو دشمن ہے اپنے وہ دوست جو بغل میں چھری منہ میں رام رام کرتے آگے پیچھے گھومتے ہیں انھوں نے بھی نہیں سوچا تھا کہ لوگ ایسے نکلیں گے ۔
کہتے ہیں کہ درد کی ایک آخری حد ہوتی ہے اس سے گزرنے کے بعد تو درد درد نہیں لگتا ۔ آج بلوچ قوم کا حال وہی ہے اسے دشمن سمیت اپنوں نے اتنا زخم دیا ہے کہ وہ اپنا درد بھول گئے ہیں۔ انھیں جتنا چاہیں ،لاٹھی ڈنڈے، گولی سے روکنے کی کوشش کریں یا توپ سے اڑانے کی احمقی کریں روک نہیں پائیں گے۔
بلوچ قوم ظلم سے چھٹکارا چاہتا ہے اسے فیصلے کرنے دیں اس کے راہ میں رکاوٹ نہ بنیں اور نہیں ان میں اپنے پسند کی روبوٹ داخل کریں کہ آپ کے اشارہ پر آئندہ چلیں ،دشمن سے یہ امید ہر وقت رکھی جاسکتی ہے مگر ان سے نہیں جو ظلم کی چکی میں قوم کو پستا دیکھ کر اپنی خاندانی منافعہ کی خاطر راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی دانستہ غیر دانستہ کوشش کرکے قوم کیلے مصیبت پیدا کرنے باعث بنتے ہیں۔
یاد رکھیں ایسے سوچ کے لوگ عوام کے اندر زیادہ نہیں رہ سکتے ہیں کیوں کہ وہ عوامی خواہش کے برعکس ذاتی مفادات کیلے کام کر رہے ہوتے ہیں ، عوام انھیں دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر باہر کر پھینک دیتے ہیں ، نتیجتا جلاوطنی بدنصیبی ان کا مقدر بن جاتاہے ۔ وہاں جاکر آپس میں دست گریبان ہوکر ایک دوسرے سے نفرت کرکے ایک دوسرے کا دشمن بن جاتے ہیں۔
اگر ہم اور آپ عوامی فیصلے کا احترام کریں گے تو اس کیلے ہمیں ان راستوں کو اپنانا نہیں ہو گا جس سے دنیا نفرت کرتی ہے ۔ جیسے پاکستانی فوج مذہب کے نام پر معصوموں کو خود کش کرنے پر ورغلاتااور منشیات بیچ کر منشیات فروشوں کو آگے کرکے مظلوموں کی آواز دبانے کی ناکام کوشش کرتی آرہی ہے ۔
مانا کہ وہ اپنے لیے بیرونی ممالک میں جزیرے تک خرید سکتے ہیں مگر انکے ملک قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ وہ اور دل دل میں دھنستے چلے جاتے ہیں ۔