پاکستان میں فوج خفیہ ادارے لغڑی سیاست دان کیسے بنا تے ہیں ؟ تحریر سمیر جیئند بلوچ



کسی بھی ترقی یافتہ یا ترقی پزیر ملک کے سماج بارے مطالعہ کریں معاشرے  کی باگ ڈور سنبھالنے کیلے مختلف پلیٹ فار م  تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے  کیلے سیاسی پارٹیاں بنتے  ہیں ( یہاں ہم سیاست پر ہی بحث کرنے کی کوشش کریں گے )  اقتدار ملک کی باگ ڈور سیاسی جماعتوں کی ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ ترقی یافتہ مہذب معاشرے میں  جماعتوں کے رہنما بدلتے رہتے ہیں ۔ اور ترقی پذیر غیر مہذب معاشروں میں یہ اختیار خاندان، فرد کے ہاتھ ہوتے ہیں یا دیئے جاتے ہیں ۔ 

پاکستان جیسے گہری ریاست میں ملکی قوانین سے لیکر تمام ادارے چاہئے سیاست ہی کیوں نہ ہو فوج کی زیر نگرانی  چلائی جاتی ہیں ۔ 

فوج اپنی مرضی سے  اس جن کو بوتل میں  بند رکھنے  کیلے ، سیاست کو مذہبی اور اشرافیہ کے مختلف طبقوں میں تقسیم کردیتی ہے ۔

مذہبی،ابتدائی  اس کی دو شاخیں بنائے جاتی ہیں ،  دینی طبقہ ، سیاسی طبقہ ۔

  اشرافیہ طبقہ  ، اس طبقہ کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جاتاہے،  جاگیر دار ، ملک ،سردار نواب ، مڈل متوسط طبقہ ۔ انہی بنیادی دو طبقات یعنی مذہبی اور اشرافیہ  میں لینڈ مافیا ، منشیات فروش ، کچے پکے کے  ڈاکو لٹیرے  شامل کیےجاتے ہیں ۔ ان کے ذریعے سماج کو کنٹرول کیا جاتاہے۔ 

جہاں مذہب کی ضرورت ہو وہاں مذہب کام آتی ہے جہاں سیاست کی بات آتی ہے وہاں سیاستدانوں کو گھسیٹا جاتاہے ۔ 

اگر ہم یہ کہیں کہ گھسیٹنے اور کھینچا تانی کا سلسلہ یہیں سے جنم لیتا ہےتو غلط نہ ہوگا ۔

فوج خفیہ اداروں کا جتنا بڑا ہدف ہوگا اسے حاصل کرنے کیلے وہ اسی  آلہ کار کا استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ 

مثلا جدید سائنس علم  ترقی کے اثرات سماج تک پہنچنے نہ دینے ہو تو وہاں  مذہبی بتوں کو سامنے لایا جاتاہے ۔ اور اشرافیہ طبقہ کو ڈھال بناکر ان کی مدد کیلے  میدان میں چھوڑدیاجاتاہے ۔ 

پھر یہ ہرطبقہ اپنے اپنے دائرہ اختیار جو فوج خفیہ اداروں کی جانب سے سونپی گئی ہو ذمہداریاں نبھانے کیلے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کرکے  سماج  میں آزادی اظہار ، معاشی ترقی ، علم شعور روکنا  شروع کردیتے ہیں ۔ 

سیاست کا راستہ روکنا ہو تو ابتداء ہی  تعلیمی اداروں سے کیا جاتاہے ، مندرجہ بالا طبقہ کے لوگوں کو  طلباء سیاست میں گھسا کر  تمام اختیارات انھیں دیا جاتاہے ۔ 

اگر پنجاب کا تعلیمی ادارہ ہے تو فوج مذہبی جماعتوں کے ذریعے ،سندھ کے تعلیمی اداروں کو جاگیرداروں کے ذریعے ،پختونخواہ کے تعلیمی اداروں کو ،مذہبی اور ملک ،مشرا ،بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو سردار نوابوں ، مڈل متوسط طبقہ ،اور مذہبی جماعتوں کے ذریعے کنٹرول کیا جاتاہے ،جن کی جڑیں راولپنڈی  جی ایچ کیو سے پیوسطہ ہوتی ہیں۔ 

پاکستان میں عام خداداد صلاحیت اور  باشعور طالب علم کیلے تعلیمی اداروں میں تعلیمی حاصل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ کسی نہ کسی سیاسی طالب علم تنظیم کا حصہ نہ بن جائیں۔ اگر تعلیمی ادارہ  پنجاب میں ہے تو مذہبی جماعت کی کسی تنظیم کا حصہ بننا لازمی ہے ۔ اگر بات مقبوضہ بلوچستان کی جائے تو یہاں بھی طالب علم کو   کسی نہ کسی تنظیم کا حصہ بننا ہوگا بھلے وہ سیاست سے کوئی دلچسپی نہ رکھتا ہو نہی وہ خاندانی سیاستدان ہو ،  مگر یہاں سیاسی تنظیم کا حصہ نہ بننے کی سزا  اسے ہر موڑ پر ملنا لازمی ہوجاتاہے اور وہ یا سیاست چنے یا تعلیم کو خیر آباد کہئے ۔

یقینا آپ سمجھتے ہونگے کہ یہاں کہنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ عام طلباء تنظیمیں اس کا ذمہدار ہیں بلکہ کہنے کا مقصد ہے کہ  طلباء تنظیمیں خود  سیاسی ،مذہبی،مسلح تنظیموں و جماعتوں کے ہاتھوں  اتنے بے بس بنائے جاتے  ہیں جتنے کہ عام طالب علم تعلیمی ادارے میں پہنچتے ہی بے بس ہوجاتاہے۔  

اگر ہم پاکستان کے تعلیمی اداروں کی بات کریں تو پرائمری سے لیکر جامعات تک  99 فیصد بچے  کسی نہ کسی طلباء تنظیم کا ، اور طلبا ء تنظیمیں خود سیاسی پارٹیوں کا حصہ ہوتے ہیں ۔ 

یہاں ہم  آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں  کہ پاکستانی تعلیمی ادارے عام لوگوں کو سیاستدان نہیں بلکہ قصائی فراہم کرنے کے ادارے بن کر رہ گئے  ہیں ۔ اور یہی قصائی  یا ہم آسان زبان میں اسے لغڑی  سیاست دان کہیں تو مناسب ہوگا ،( لغڑی لفظ کا استعمال پشتون اس شخص کیلے استعمال کرتے ہیں جو باڈر پر کام کرکے اپنا اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں وہ یہاں  جسمانی مشقت کے علاوہ کوئی سرمایہ نہیں لگاتا نہ اس کے پاس اتنی سرمایہ ہے کہ وہ  کام میں لگا سکے اور نہی  اسے اتنا تعلیمی شعور ہے کہ وہ اپنا ذہن تھکا سکے )   یہی لغڑی  ہر جگہ سیاست کرتے دیکھے جاسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے سیاسی جماعتیں تنظیمیں زوال پذیری کی بھنور میں پھنس کر رہ گئے ہیں ۔ ان کے پاس اپنا ذاتی بینک بیلنس بڑھانے کا گر کوٹ کوٹ کر بھرا پڑا ملتا ہے ، مگر عوام اور ساتھی کسی بھی تنظیم کے ممبر کیلے ان کے پاس دو وقت کی روٹی کمانے کا منصوبہ ہے نہی  آزادانہ سیاسی  سوچ دے سکتے  ہیں ۔ 

اور ہو بھی کیوں ؟ کیوں کہ وہ خود اس چکی سے دانستہ غیر دانستہ پس کر آئے ہوتےہیں،  جو جی ایچ کیو راولپنڈی نے ہر  تعلیمی  ادارے میں سیاست کو پیسنے کیلے رکھا ہوتا ہے ، چاہئے وہ اس کا اپنا حصہ  یا بلوچستان اور سندھ کی طرح مفتوحہ  علاقے ہوں چکی ہر جگہ موجود رہتی ہے کیوں کہ انھیں لغڑی سیاستدان پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ 

 اب یہ طلباء کی ذمہداری ہے کہ وہ سماج کی ترقی کیلے  فوج خفیہ اداروں سے سیاست کے شعبہ کو کیسے لغڑی سیاستدان  کے ٹیکہ سے بچا اور آزاد کر سکتے ہیں ۔ اگرآپ کو  حقیقی سیاست دان بننا اور مہذب سماج میں جگہ پانا ہے تو ترقی یافتہ سماج کو فالو کریں ، اگر پیداگیر لغڑی سیاستدان بننا ہے تو سماج کے تبدیلی بارے نہ سوچیں اور فوج کی چمچہ گیری کرکے  لغڑی سیاستدان بن کر  عیش کی زندگی گزاریں ۔ جیسےجاگیر دار لغڑی سیاستدان بن کر سماج کے کاشت کار کو چکی میں پیستی ہے  ، کارخانہ دار مزدور کو ،مذہبی  دینی سیاستدان سائنسی علم کو مذہب   کے نام پر ، سردار نواب، قبائل کے نام  اور جرائم پیشہ افراد کے ذریعے   ،مافیا، منشیات فروش ڈاکو ، ڈنڈے بندوق کے زریعے ،مڈل متوسط طبقہ میٹھی بول بول کر ووٹ، قومی حقوق  انقلاب  کے نام پر چندہ جمع کرکےسماج کو لوٹتے  اور فوج کی تجوریاں دانستہ غیر دانستہ بھرنے کا سبب بنتے رہتے ہیں۔ 

(شکریہ زرمبش اردو )


Post a Comment

Previous Post Next Post