کوئٹہ بلوچ جبری لاپتہ کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 65465 دن ہو گئے۔

 بلوچ جبری  لاپتہ کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 65465 دن مکمل  




 اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے چیئرمین جہیند بلوچ جنرل سیکرٹری حسیب بلوچ یونس بلوچ اور دیگر نے کیمپ اگر اظہار یکجتی کی۔

اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم بی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی قابض قوتیں نہ صرف بلوچستان کی سرزمین اور وسائل پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں، بلکہ بلوچ قوم کو بھی ریڈ انڈین باشندوں کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دینے  یا انہیں  اپنی سر زمین سے بیدخل کرنے کی خواہش مند ہیں ۔ اس کے علاوہ درنده صنعت سفاکیت کا چنگیزی عمل پاکستانی بالا دست طبقے کا بلوچ قوم کے خلاف گہری نفرت اور عداوت کو بھی آشکار کرنا ہے ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اس سفاکیت کا بدترین مظاہرہ سیاسی کارکنوں طلباء نوجوانوں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا کے بعد اُن کی تشدد زدہ مسخ لاشوں کی ویرانوں سے برآمدگی کے انسانیت سوز المیوں کی صورت میں سامنے آرہی ہے گزشتہ چند مہینوں میں ہزاروں بلوچوں کو جبری اغوا کیا گیا اور اُن کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاچکی ہیں ۔ 

انھوں نے کہاکہ ان تمام بلوچ شہدا کو ماورائے قانون و عدالت گرفتار کر کے ریاستی حراست میں مقابلہ کا نام دیگر شہید کیا گیا۔ اور اور یہ یہ سلسلہ سلسلہ جاری ہے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کی یہ سفاکیت کئی سوال پیدا کر رہی ہے ۔

انھوں نے کہاکہ  بعض ممالک حیران ہے کہ اخر وہ کون ایسی وجوہات ہیں کہ پاکستانی حکمران قبضہ تو اپنی جگہ بلوچوں کو اذیت ناک طریقے سے مٹانے کے درے ہیں۔ اس سوال کا جواب کئی پہلووں کا حامل ہے قابض قوتیں بھی ذہنی تبدیلی کو بھانپ چکی ہیں. اس لیے وہ بلوچ قوم کی نسل کشی کو اپنی بقا اور بالا دستی  کا خیال کر رہی جس کا مظاہرہ بلوچ گھرانوں دیہاتوں اور شہروں میں آئے روز فوجی کا روایوں میں عام بلوچوں خواتین بچوں اور بوڑھوں سمیت ہر عمر افراد کو نشانہ بنانے کی صورت میں دیکھا جا سکتا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post