آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں بلوچ حقوق کارکن سمی دین بلوچ نے ایشیا اور پیسفک ریجن کے لیے فرنٹ لائن ڈیفینڈرز ایوارڈ 2024 اپنے نام کر لیا۔
فرنٹ لائن ڈیفنڈرز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایلن گلاسگو نے کہا کہ "ہمیں دنیا کے بہت سے حصوں میں انسانی حقوق کے خلاف کام کرنے والی منفی قوتوں کا سامنا ہے ، جس کے باعث یہ امید کم ہو جاتی ہے کہ ایک بہتر دنیا بھی ممکن ہے۔لیکن انسانی حقوق کے ان دلیر محافظوں نے اس فتنے کو ٹھکرا کرہماری امیدوں کو زندہ رکھا ہے۔ وہ مجرموں کو ‘نہ کہتے ہیں اور مزاحمت کوہاں کہنے کا جگر رکھتے ہیں،وہ جانتے ہیں کہ ایک منصفانہ، زیادہ مساوی، حقوق کا احترام کرنے والی دنیا لڑنے کے قابل ہے۔
ایوارڈز حاصل کرنے والوں نے ٹرنیٹی کالج ڈبلن میں ایک تقریب میں ایوارڈ وصول کیا، جس میں غیر ملکی سفارت کاروں اور آئرش حکومت، سول سوسائٹی اور میڈیا تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
ایوارڈ کے لیے آئرش پارلیمانی سرپرستوں نے بھی شرکت کی ۔یاد رہے کہ سمی دین بلوچ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع آواران کے مشکے سے تعلق رکھنے والی ایک بلوچ خاتون انسانی حقوق کی محافظ ہے۔ وہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) کی جنرل سیکرٹری ہیں، جو کہ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے متاثرین اور لواحقین کی نمائندگی اور حمایت کرتی ہے۔
جون 2009 میں، 10 سال کی عمر میں، سمیع کے والد، ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو خضدار، بلوچستان سے لاپتہ کر دیا گیا۔ اس نے اپنے والد کی رہائی کے لیے مسلسل مہم کا آغاز کیا ، جس کی وجہ سے وہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک توانا آواز بن کر ابھری۔
اس موقع پر سمی دین بلوچ نے کہاکہ آج کی تقریب میں ایشیا کے لیے فرنٹ لائن ڈیفنڈرز 2024 ایوارڈ حاصل کرنامیرے لئے اعزاز ہے۔
بلوچستان، پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف میری پندرہ سالہ جدوجہد کو تسلیم کرنے پر فرنٹ لائن ڈیفنڈرز کی تہہ دل سے مشکور ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ میں یہ ایوارڈ بلوچ خواتین کے نام کرتی ہوں خاص طور پر ان لوگوں کو جن کے پیاروں کو زبردستی لاپتہ یا ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔ میں ان کی انتھک جدوجہد کا انتہائی احترام کرتی ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 2009 میں میرے والد ڈاکٹر دین محمد کی جبری گمشدگی کے بعد سے، میں نے، 10 سال کی عمر میں، ان کی بحفاظت رہائی کے لیے احتجاج شروع کیا۔ میں اور میرے خاندان نے پچھلے پندرہ سال انصاف کی تلاش میں گزارے ہیں، مگر آج تک میرے والد کی کوئی خبر معلوم نہ ہو سکی ۔
انھوں نے کہا کہ اس جدوجہد کے ذریعے، میں نے محسوس کیا کہ ہمارے خاندان کو جس درد اور جبر کا سامنا ہے، بلوچستان اور پاکستان کے دیگر خطوں کے ہزاروں دوسرے خاندان بھی اس کا شکار ہیں۔ میری زندگی احتجاجی کیمپوں میں شرکت کرنے، پریس کلبوں کا دورہ کرنے، ریلیوں کے انعقاد ، جبری گمشدگیوں کے غیر انسانی عمل کے خاتمے اور میرے والد سمیت تمام لاپتہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کرنے میں ہی گزری ہے۔