پاکستان کی نوآبادیاتی ریاست سے نجات کے لیے بہت زیادہ قربانیوں اور حقیقی عمل کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر نسیم بلوچ

 



بحیثیت قوم ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ رہنا ناقابل برداشت ہے، لیکن پاکستان کی نوآبادیاتی ریاست سے نجات کے لیے بہت زیادہ قربانیوں اور حقیقی عمل کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے مستقبل کے بارے میں بہت عملی اور حقیقت پسندانہ ہونا پڑے گا۔یہ بات بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بی این ایم جرمنی چیپٹر کے پانچویں جنرل باڈی اجلاس میں کہی۔

 انھوں نے کہاکہ پاکستان کے ساتھ ہمارا کوئی رشتہ نہیں تھا اور نہ ہی ہم پاکستان کے ساتھ کوئی رشتہ رکھنا چاہیں گے۔ ہمارا وژن اور خواب واضح ہے کہ  ہمیں پاکستان کی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی چاہیے۔

ڈاکٹر نے کہاکہ پاکستان اپنی مظالم کو اتنا بڑھا دے گا کہ وہ خوف کی کیفیت پیدا کر سکے اور  بلوچ عوام  اپنی آزادی کے حق کے لیے  آواز نہ اٹھاسکیں۔ مسلسل ظلم و ستم ، جبری گمشدگیوں، قتل وغارت گری اور اجتماعی سزاؤں کے باوجود بلوچ قوم اپنے عزم سے کبھی پیچھے نہیں ہٹی۔ یقیناً یہ جدوجہد بلو چستان کی آزادی تک جاری رہے گی۔

ڈائسپورہ میں بلوچوں کی جدوجہد پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یقیناً ہم طویل مسافت طے کر کے اس مقام پر پہنچے ہیں لیکن ہمیں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے تک اس سفر کو آگے بڑھانا ہے۔

  بی این ایم کے چیئرمین نے کہا کہ گذشتہ کونسل سیشن میں بلوچ قومی تحریک کو مزید پیشہ ورانہ انداز سے آگے بڑھانے بنانے کے لیے پارٹی آئین میں مثبت تبدیلیاں کی گئیں تاکہ قومی تحریک کو مزید موثر اور نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔ تقریباً دو سال مکمل کرنے کے بعد ہم نے ایک نتیجہ خیز تبدیلی دیکھی ہے۔ بی این ایم کے ادارہ انسانی حقوق ’ پانک ‘کے قیام سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احاطہ کرنا ممکن ہوا۔ اسی طرح ہم نے سوشل ویلفیئر اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں زیادہ پیشہ ورانہ مہارت دیکھی  اور ہمارے خارجہ ڈیپارٹمنٹ نے بھی نمایاں پیش رفت کی۔

نوآبادیاتی اثرات پر بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر کوئی شخص ٹی بی جیسی بیماری سے بھی مر جاتا ہے تو یہ بھی لمحہ فکریہ ہے ،جیسا کہ ممتاز بلوچ فوٹوگرافر کمانچر کی موت پاکستان کی استعماری پالیسی کا تسلسل ہے  کیونکہ بلوچستان کے عوام  صحت بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔

انھوں نے تارکین وطن کی صورتحال پر گفتگو میں کہاکہ مہاجرت کی زندگی کسی کے لیے بھی ایک آسان انتخاب نہیں۔ جب آپ مادر وطن سے دور ہوتے ہیں تو آپ کے لیے کچھ بھی نارمل نہیں ہوتا، یہاں تک کہ آپ کی خوشی اور غمم بھی معمول کے مطابق نہیں ہوتے۔ آپ کی شادی کی تقریب روایتی شادی کی تقریب کی طرح نہیں ہے، اسی طرح انتقال اور تعزیت کے مراسم وہ  نہیں رہے۔ یقیناً یہ حالات آپ کو مزید توانائی بخشتی ہیں اور آپ کو اپنے مقصد، آزادی کے ہدف، اپنی مادر وطن واپس جانے کے  لیے مزید پرعزم بناتی ہیں۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے شہید دوستا محمود اور ان کے اہل خانہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے علاوہ  انھوں نے  جبری لاپتہ ہونے والے تمام افراد کو بھی بلوچ شہدا کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا جو پاکستانی ٹارچر سیلز میں غیر انسانی تشدد برداشت کر رہے ہیں۔

  آخر میں انھوں نے کہا کہ جرمنی میں آنا اور اس تقریب کا حصہ بننا میرے کے لیے ایک قابل فخر لمحہ ہے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post