سوال: بحیثیت بلوچ قومی اور مزاحمتی رہنما آپ بلوچستان کی موجودہ سیاسی، سماجی اور مزاحمتی صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: ردانقلابی قوتون کو ہمیشہ عالمی سامراج کی مدد و حمایت حاصل رہی ہے۔ بحثیت ایک آزادی کا سپاہی، بلوچستان کی مخصوص سیاسی و سماجی صورت حال اپنے خاص سماجی وضع کے ساتھ بڑی تبدیلی نا صرف مجھے بلکہ بلوچستان کی آزادی پر نظر رکھنے والے ہر باشعور انسان اور عالمی طاقتوں کو دکھتی ہے۔ جیسا کہ چین جیسے دیوہیکل توسیع پسند طاقت کو اپنے سامراجی منصوبوں سے پیچھے ہٹنا پڑ رہا ہے۔ آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ بلوچستان میں دیگر کثیرالقومی سرمایہ دار بلوچ سرزمین پر سرمایہ کاری سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں گو کہ قابض اور انقلابی قوتون میں توازن برابر نہیں ہے۔
لیکن بلوچ قوم کے بے دریغ قربانیوں کی وجہ سے نا صرف قابض پاکستان نے بلوچ قومی تحریک آزادی کی حقانیت کی (کٹھ پتلی سابقه وزیراعظم کاکڑ نے بین الاقوامی میڈیا کے سامنے) تصدیق کی ہے کہ بلوچ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ثقافتی ورثےکو نا صرف بچایا ہے بلکہ بلوچ سماج میں انقلابی قوتوں کی وجہ سے ایک عظيم انقلابی ادب تخلیق ہو چکا ہے۔ دوسری جانب بلوچ خواتین تحریک آزادی میں عظیم کردار ادا کر رہی ہیں جو ایک انقلابی تحریک کے لیے عظیم کامیابی ہے۔ رد انقلابی قوتیں ملیٹری آپریشنز اور ڈیتھ اسکواڈز تشکیل دینے اور جمہوریت کے نام پر بلوچ جنگ آزادی کے سامنے بحیثیت ایک ہتھیار کے استعمال کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ 8 فروری کے نام نہاد انتخابات میں بلوچ کی عدم شمولیت ایک واضح مثال ہے۔
سوال: آپ علائقائی صورتحال باالخصوص اسرائیل - حماس جنگ اور عالمی صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر اللہ نذربلوچ: جہاں تک ہمارا بحیثیت قوم تعلق ہے کسی بھی علاقائی یا بین الاقوامی معاملے کے ہم پر مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اب دنیا مزید unipolar نہیں رہی۔ چائنا اور روس کے اتحاد اور انڈیا امریکا انڈو پیسفیک اتحاد کو دیکھتے ہوئے 'حماس-اسرائیل' جنگ کوئی انوکھی شے نہیں۔
سوال: ویسے تو بلوچ مزاحمت کافی پرانی ہے اور گذشتہ 20، 25 سالہ جنگ میں ہمارے مشترکہ دشمن پنجاب سامراج کا بڑے پئمانے پر فوجی، مالی اور جانی نقصان بھی ہوا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ کون سے عوامل اور فیکٹرز ہیں جو بلوچستان کی آزادی کی حاصلات میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں؟
ڈاکٹر اللہ نذربلوچ: نظریاتی حوالے سے بلوچ مزاحمتی تحریک جبری قبضہ سے ہی شروع ہوئی۔ جہاں تک گزشتہ بیس سال کی سیاسی و گوریلا جنگ کی بات ہے وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے دشمن نے فوجی، مالی اور جانی نقصان اٹھایا ہے اس کے ساتھ ساتھ نفسیاتی حوالے سے بھی شکست کھا چکا ہے۔ آپ کے سوال کا دوسرا حصہ کہ آزادی کی حاصلات میں رکاوٹ عوامل کے حوالے سے میں سمجتا ہوں بلکہ دنیا بھی، کہ یہ ایک ڈیپ سٹیٹ ہے اور دہشت گردی کی منبع ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک ہے۔ میں سمجتا ہوں بین الاقوامی طاقتیں اس کی کرائے کی فوج کو اپنے مفادات کے لیے آسانی سے خرید سکتی ہیں۔ اس لیے اسے ابھی تک آکسیجن ٹینٹ میں رکھے ہوئے ہیں جو دنیا خود کو مہذب کہتی ہے یہ اس کے دوغلہ پن کو ثابت کرتا ہے۔ حالانکہ سابقہ سویت یونین پاکستان سے کئی گنا زیادہ ایٹمی طاقت تھی، دوسرے عوامل کے ساتھ معاشی زبوں حالی ہی نے ان کا شیرازہ بکھیر دیا۔
میرے خیال میں یہ غیر فطری ریاست پاکستان اپنے اتحاد کو پچیس سال تک برقرار نہیں رکھ سکا۔ موجودہ غیر فطری ریاست پاکستان اپنی طبعی عمر مکمل کر چکی ہے یہ اب مزید برقرار نہیں رہ سکتی۔
سوال: جنوبی ایشیا کے اس خطے میں غلام بنائی ہوئی دو تاریخی اقوام بلوچ اور سندھیوں کی آزادی کے لیئے علائقائی اور عالمی صورتحال کتنی حق میں ہے؟ یا اس صورتحال کو اپنے حق میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر اللہ نذربلوچ: میں یہ سمجتا ہوں کہ جنوبی ایشیا میں سب سے تنومند اور طاقتور آزادی کی تحاریک میں سب سے زیادہ طاقتور تحریک بلوچ اور سندھیوں کی ہے اور پشتون تحریک آزادی بھی سر اٹھا رہی ہے۔ میں نے پہلے ہی کہا کہ عالمی طاقتیں اور علاقائی قوتیں ہماری جنگ آزادی سے ڈارکٹ یا ان ڈارکٹ فائدہ اٹھا رہی ہیں اور یہ سمجھ بھی چکی ہیں کہ آزاد و خودمختار بلوچستان و سندھودیش ان کے حق میں ہیں لیکن اپنے ریاستی مفادات کی خاطر اس ٹھوس صداقت کو اگلنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس بدمعاش ریاست کی کرتوتوں سے ان کے ہمسائے نا صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ امریکا میں9/11 کا واقعہ ہو یا ممبئی حملہ ہو یا برطانیہ میں لندن حملہ ہو یا حالیہ افغانستان میں کندھار کا واقعہ ہو یا ایران میں کرمان کا واقعہ ہو یا روس کی کنسرٹ ہال کا واقعہ ہو ان تمام کی رگ ورریشہ کی پرورش پاکستان میں ہو رہی ہے اور یہ عالمی امن و سلامتی کے لیے ہنوز ایک بڑا خطرہ ہے۔ میرے خیال میں علاقائی طاقتین یہ ادراک رکھتی ہیں۔ قومی جغرافیائی اور ثقافتی ریاستیں یعنی آزاد بلوچستان، سندھودیش اور پشتونستان عالمی امن کی ضامن ہیں۔
سوال: بلوچ آزادی پسند مزاحمتی تنظیموں کے اتحاد "براس" کے ساتھ سندھی آزادی پسند مزاحمتی تنظیم "ایس آر اے" بھی اتحاد میں شامل ہے۔ یہ اتحاد بلوچستان اور سندھ کی آزادی کی جنگ میں کتنی پیش قدمی کر سکا ہے؟ یا مستقبل میں کون سی حکمت عملی کے تحت دونوں مظلوم اقوام کی آزادی کے لیئے ٹھوس اور دیرپا نتیجے لیئے جا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر اللہ نذربلوڇ: آزادی کی تحریک پرو ٹریکٹڈ ہوتی ہیں براس اور ایس ار اے بڑے اہداف حاصل کر چکے ہیں میری دانست کے مطابق یہ کہ بلوچ اور سندھی اپنی جنگ آزادی کے تسلسل کو اتنا جاری و ساری رکھیں کہ اس تسلسل میں کوئی کمی نہ ہو اور اسی تسلسل کے باعث ہم اپنے ٹھوس اور دیرپا نتائج حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ اس غیر ذمہ دار اور غیر فطری ریاست کو فوجی نقصان کے ساتھ ساتھ معاشی نقصان ہی اس کی کشتی کو ڈبو سکتا ہے اور دیر تک دنیا بھی اس ناسور کو قائم رکھنا نہیں چاہتی ہے.
اس کے ساتھ ساتھ میں نئے سندھی یعنی اردو بولنے والے نوجوانون کو بھی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ کی مرگ و زیست ہی سندھ میں ہے اور سندھ کے بغیر آپ اپنے ہی موقع پرستوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار بنتے جائیں گے اور یہ ایلیٹ کلاس آپ کو صبح و شام نفرت کا درس دیتا ہے اس سے چھٹکارہ حاصل کریں اور سندھی بن کر سندھودیش کی آزادی میں حصہ لیں۔
سوال: آپ کا یہ انٹرویو ایس آر اے کے ترجمان مئگزین "مزاحمت" میں سائیں جی ایم سید کی برسی کے موقع پر شایع کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر آپ سائیں جی ایم سید کی شخصیت اور جدوجہد کے متعلق کیا کہنا چاہیں گے؟
ڈاکٹر اللہ نذربلوچ: میں اس میگزین مزاحمت کے ذریعے سندھی دانشور اور نوجوانوں کو سائیں جی ایم سید کی شخصیت کے متعلق یہ دوستانہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ سندھی زبان و ثقافت اور آزادی کی جنگ کو جاری رکھیں اور سائین جی ایم سید کی فرمودات، علمی کاوشیں اور عملی جدوجہد کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں جن کی علمی کاوشیں و عملی جدوجہد تمام محکوم اقوام کے لیے مشعل راہ ہیں۔
سوال: آپ ایس آر اے کے اس ترجمان مئگزین "مزاحمت" کی معرفت سندھی قوم باالخصوص سندھی نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: میں سندھ کے نوجوانون کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی قوم کے جاگیردار طبقہ کو جو ہمیشہ سندھ کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ پنجاب کو توانانی دیے رہا ہے ان کے متعلق اپنی قوم کو آگاہ کریں بلکہ مشینری کی طرح سندھ کے ہر گھر مین اپنا آزادی کا پیغام پہنچائیں، اس سے بڑھ کر اتحاد قائم کریں کیونکہ مظلوم و محکوم کی تقسیم ہی قابض کے حق میں جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ میں نئے سندھی یعنی اردو بولنے والے نوجوانون کو بھی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ کی مرگ و زیست اب سندھ میں ہے اور سندھ کے بغیر آپ اپنے ہی موقع پرستوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار بنتے جائیں گے اور یہ ایلیٹ کلاس آپ کو صبح و شام نفرت کا درس دیتا ہے اس سے چھٹکارہ حاصل کریں اور سندھی بن کر سندھودیش کی آزادی میں حصہ لیں۔
نوٹ یہ انٹرویو بلوچستان کے قومی مزاحمتی رہنما اور بی ايل ايف کے کمانڈر انچیف ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا ایس آر اے کی میگزین مزاحمت کو دیا گیاتھا ۔ہم شکریہ کے ساتھ من و عن شائع کر رہے ہیں ۔