بی ایس ایف کے مرکزی کونسل سیشن بنام بلوچ خواتین و بیاد شہدائے بلوچستان کا اعلان




بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی چیئرمین ڈاکٹر شکیل بلوچ نے دیگر کابینہ ارکان کے ہمراہ لسبیلہ پریس کلب حب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج کے اس دور میں قبضہ گیر اور سامراجی ریاستیں خود کو منظم اور مستحکم کرنے کیلئے کمزور اور غلام اقوام کے خلاف صف آرا ہیں۔ سامراجی ریاستیں براہ راست دیگر کمزور ممالک پر حملہ آور ہوکر معصوم لوگوں کا بے دردی سے قتل عام کر کے ان پر قبضہ کر رہے ہیں۔ جن میں اسرائیل سر فہرست ہے جو کہ امریکہ، برطانیہ، اور دیگر سامراجی طاقتوں کی مدد اور تعاون سے فلسطین کے مظلوم عوام پر مہلک اور جدید ہتھیاروں سے حملہ کرکے ان کی نسل کشی کر رہا ہے، اب تک تیس ہزار سے زائد لوگ اس حملے میں ہلاک جبکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں اور بیس لاکھ کے قریب لوگ اپنے گھروں سے بے دخل کئے جا چکے ہیں۔ اسکے علاوہ دو سالوں سے روس اور یوکرین تنازعہ گھمبیر شکل اختیار کرچکی ہے، روس یوکرین پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، اس میں روس کو سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ یوکرین نیٹو میں شمولیت اختیار کرسکتا ہے جو کہ روس مستقبل میں روس کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ان پراکسی جنگوں میں سب سے بڑا ہاتھ امریکہ کا ہے، جسکا واضح مقصد ہتھیار اور جنگی سازوسامان کی فروخت کرکے اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہے۔ دنیا میں ان پراکسی جنگوں کا امریکہ جیسے سامراجی ممالک کو براہ راست فائدہ ہو رہا ہے جبکہ محکوم اور کمزور اقوام کے زمینوں پر قبضہ کرکے ان پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا دنیا کے کالونیل اور طاقتور ریاستیں اپنی معیشت کو مستحکم کرنے اور اپنی قبضہ گیریت کو دوام بخشنے کیلئے کمزور ممالک پر قبضہ کرکے انکے قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کر رہے ہیں۔ اس دور جدید میں بعض ایسے مقبوضہ ممالک جن کے اندر وسیع پیمانے پر قدرتی وسائل تو پائے جاتے ہیں لیکن ان کے باسی نان شبینہ کے محتاج ہیں۔ ان مقبوضہ علاقوں کے لوگ زندگی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، وہاں نہ اچھے ہسپتال اور روڈ تعمیر کئے گئے ہیں اور نہ ہی پینے کیلئے صاف پانی اور بجلی کی سہولیات موجود ہیں۔ ان پسماندگیوں اور خستہ خالیوں کے اسباب سامراجی ممالک ہیں جو انکے ساحل و سائل پر قبضہ کرکے انہیں زندگی کے تمام تر سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کے اندر مظلوم عوام کو ترقی کے نام پر مزید استحصال کیا جا رہا ہے، ان سے زندہ جینے کا حق چینا جا رہا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، عالمی عدالتوں میں محکوم لوگوں پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف کسی طرح کا اقدام نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ سر زمین اپنی بے شمار قدرتی وسائل اور اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے عالمی ممالک کے نظروں میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ قبضہ گیر اور سامراجی ممالک بلوچ سرزمین پر اپنی اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سرزمین کی حفاظت کیلئے بلوچ نوجوانوں، عمر رسیدہ لوگوں اور خواتین نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، انگریز حملہ آوروں سے لیکر دور حاضر میں بلوچ اپنی سر زمین کی دفاع کیلئے تسلسل کے ساتھ کھڑا ہے، 1839 میں جب برطانوی سامراج نے بلوچستان کے اندر پیش قدمی کی تو اپنے سرزمین کے دفاع کیلئے میر مہراب خان نے اپنے ساتھیوں سمیت اپنے جان کا نزرانہ پیش کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے سرخم تسلیم نہیں کی۔ اسی طرح 1948 سے لیکر آج تک بلوچ قوم نے قربانیوں کے تسلسل کو برقرار رکھا ہے، اس جد وجہد میں نوجوان، خواتین،طلبا، مزدور اور دیگر مختلف طبقہ فکر کے لوگ شریک ہیں۔

جب قبضہ گیر اور سامراجی طاقتیں محکوم اور مظلوم لوگوں پر قبضہ کرتے ہیں تو وہ اپنی جبر و استبداد کے تسلسل کو قائم رکھنے کیلئے محکوم لوگوں کو ہر میدان میں پسماندہ رکھنے کی کوشش کرکے ان میں احساس کمتری پیدا کرتے ہیں۔ انہیں زراعت، لائیو اسٹاک، صحت و صفائی، تعلیم، تجارت، سمیت ہر میدان میں ترقی کرنے نہیں دیا جاتا اور انکے لئے ترقی کے تمام راستوں کو بند کر دیا جاتا ہے، نوآباد کار مختلف ہتھکنڈوں اور سازشوں کے زریعے محکوم اقوام کے زبان، کلچر، تاریخ اور زمینی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ محکوم اقوام کے نوجوانوں کی زہنی اور شعوری فروغ کو روکنے کیلئے ان کے اندر احساس کمتری پیدا کرنے کی کوشش کیا جاتا ہے تاکہ وہ زہنی طور پر مفلوج ہو کر شعور سے عاری ہو سکیں۔ وہ اقوام جن کو علم وشعور سے محروم رکھا گیا ہو تو وہ مستقل طور پر غلام ہو کر اپنی زبان، تاریخ، کلچر، شناخت اور زمین سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

انہوں نے کہا جیسا کہ نوجوان اپنے قوم کے ریڈھ کی ہڈی کے مانند ہیں، وہ اقوام اپنے آگے رکاوٹوں اور غلامی کی زنجیروں کو کبھی نہیں تھوڑ سکتا جب ان کے نوجوانوں کو علم وشعور سے دور رکھا گیا ہو، قبضہ گیر ہمیشہ محکوم قوم کے نوجوانوں کو علم و شعور سے بیگانہ رکھنے کیلئے انہیں تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح دور حاضر میں بلوچ نوجوانوں کو تعلیم اور شعور سے دور رکھنے کیلئے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال کیا جا رہا ہے، تعلیمی صورتحال اس قدر گھمبیر ہیں کہ دور حاضر میں جدید تعلیمی تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتے، تعلیمی ادارے تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، روزانہ کی بنیاد پر مختلف مسائل ابھر کے سامنے آ رہے ہیں، معاشی مشکلات کی وجہ سے متعدد نوجوان یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں سے دور ہیں، وہ نوجوان جو بڑی مشکل سے یونیورسٹی تک پہنچ کر داخلہ لینے میں کامیاب ہوتا ہے تو انکے تعلیمی راستوں پر مختلف رکاوٹیں کھڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ آج اس گھمبیر صورتحال کے اندر بلوچ نوجوان خود کو نہ اپنے گھروں میں محفوظ سمجھتے ہیں اور نہ ہی تعلیمی اداروں میں، نوجوانوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے، لیکن ان تمام تر مسائل اور مشکلات کے باوجود بلوچ طلباء نے خود کو کتابوں کے ساتھ منسلک کرکے تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کو جاری رکھے

ہوئے ہیں۔

آج کے دور میں طلباء سیاست پر غیر اعلانیہ قدغن لگا کر انکے سیاسی حقوق کو سلب کیا گیا ہے، سیاسی تنظیموں سے منسلک طلباء کو مختلف سازشوں کے زریعے سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، طلبا سیاست پر ایک طرح کی پابندی ہے۔ اگر تعلیمی اداروں پر نظر دوڑائی جائے تو تعلیمی ادارے روز بروز ابتر ہوتے جا رہے ہیں، تعلیمی اداروں میں مقتدرہ حکمرانوں نے اقرباپروری کے زریعے اپنے من پسند لوگوں کو تعینات کرکے مسلط کئے ہیں، جنکی وجہ سے تعلیمی نظام انتہائی پسماندہ ہے۔

انہوں نے کہا سوشل میڈیا کی توسط سے ہم نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان تمام رکاوٹوں کو پس پشت ڈال کر ہمیں تعلیمی تسلسل کو جاری رکھنا ہے، معاشی اور سیاسی میدان میں خود کو منظم کرنا ہے تاکہ ایک شعور یافتہ قوم کی حیثیت سے ہم دیگر ترقی یافتہ اقوام کے برابر آسکیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ ایک طلبا تنظیم کی حیثیت سے بلوچستان کے مختلف علاقوں اور تعلیمی اداروں میں سیاسی اور تعلیمی شعور کو اجاگر کرنے کیلئے جدوجہد کر رہا ہے، اس حوالے سے بی ایس ایف نے بلوچ نوجوانوں کی سیاسی اور شعوری آبیاری کیلئے اپنا پہلا تربیتی سیریز ”زانش“ جو کہ سیاسی اصطلاحات پر مشتمل ہے شائع کی ہے، زانش بلوچ نوجوانوں کی سیاسی شعور کو فروغ دینے کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل کتابچہ ہے۔ زانش کے علاوہ بی ایس ایف کے لٹریری کمیٹی نے میگزین ”مہرگڑھ” بھی شائع کی ہے، جن میں مختلف موضاعات پر لکھے گئے مضامین شامل ہیں، ان دو سالوں کے اندر مختلف مسائل اور رکاوٹوں کے باوجود بی ایس ایف کی قیادت نے تعلیمی اداروں کے اندر اسٹڈی سرکلز منعقد کئے ہیں، اسکے علاوہ آواران جیسے پسماندہ علاقے میں ”مہرگڑھ لٹریری اینڈ ایجوکیشنل فیسٹیول“ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں ”مہرگڑھ کتاب کارروان“ کے نام پر بک اسٹالز انعقاد کئے گئے ہیں۔ مستقبل میں بھی بی ایس ایف کے ساتھی اس سیاسی اور شعوری عمل کے تسلسل کو مضبوطی کے ساتھ برقرار رکھیں گے۔

آخر میں انہوں نے کہا چونکہ بی ایس ایف کی آئین کے مطابق ہر دوسال کے اندر مرکزی کونسل سیشن کا انعقاد کیا جائے گا۔ تنظیم کی آئین کے مطابق بی ایس ایف کا تیسرا مرکزی کونسل سیشن بنام بلوچ خواتین اور بیاد شہدائے بلوچستان 17، 18، 19 مئی کو بمقام کراچی منعقد کیا جائے گا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post