کیچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلے جاری دھرنوں میں شرکت کی اپیل کرتے ہیں ۔ترجمان بی وائی سی



بلوچ یکجہتی کمیٹی بی وائی سی کے ترجمان نے جاری بیان میں کہا ہے کہ جبری گمشدگی کے معاملات ایک نازک موڑ پر ہیں، اور پرامن مظاہرین کو جھوٹے وعدوں کے ذریعے ورغلا نا انتظامیہ کا ناقابل  قبول عمل  ہے۔ ہم ان کھوکھلی یقین دہانیوں کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور مظاہرین کے پیاروں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انھوں نے کہاہے کہ گزشتہ تین دنوں کے دوران، ضلع کیچ   کے علاقہ شاپک میں سی پیک روٹ کو لاپتہ افراد کے لواحقین نے بند رکھا ہےجبکہ  تربت میں ڈی بلوچ کے مقام پر  دھرنا جاری ہے۔ 

انھوں نے کہاہے کہ جامعہ  تربت کے  بی ایس ایجوکیشن پروگرام میں داخلہ لینے والا  طالب علم نعیم رحمت اپنے دوسرے سمسٹر میں تھا جب 17 مارچ 2022 کو اسے جبری لاپتہ کر دیا گیا تھا۔ اسے دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، اور اسکے بارے کسی قسم کی معلومات اہلخانہ کو نہیں دیا گیا ہے ،تو دوسری جانب  اس کا  تعلیمی سلسلہ رکا ہواہے ۔ 

ترجمان نے کہاہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے  جبری گمشدگی کے بعد سے، نعیم کے اہل خانہ مظاہرے کر رہے ہیں، اس کے باوجود اسے بحفاظت رہا نہیں کیا جارہاہے ۔ 10 اپریل 2024 کو، عید کے دن، اس کے خاندان نے شاپک، کیچ میں CPEC کے مرکزی راستے پر دھرنا (دھرنا) دیا۔ دھرنا پھر اس وقت ختم کیا گیا، جب کیچ کے ڈپٹی کمشنر نے انہیں پانچ دن کے اندر نعیم کی بحفاظت رہائی کی یقین دہانی کرائی۔ مگر ناکام رہے ، جس کی وجہ سے ان کے اہل خانہ نے ایک بار پھر شاپک میں CPEC روٹ پر دھرنا دیکر بیٹھ گئے ہیں ۔ 

اس کے علاوہ  تربت کے علاقے ڈی بلوچ میں عزیر بلوچ اور نواز بلوچ کے اہل خانہ کی جانب سے دھرنا جاری ہے۔ حاجی شمبے کا بیٹا عزیر بلیدہ ڈگری کالج میں بطور لیکچرار خدمات انجام دے رہے تھے اور جوسک، تربت میں رہائش پزیر کہ انھیں ایف سی، ایم آئی اور سی ٹی ڈی اہلکاروں نے 18 اپریل 2024 کو اس کے آبائی شہر سے جبری لاپتہ کر دیا ، اسی طرح بلیدہ بٹ کے رہائشی نواز بلوچ کو بھی اسی رات سکیورٹی فورسز نے چھاپے کے دوران جبری لاپتہ کر دیا تھا۔

ترجمان نے کیچ اور آس پاس کے علاقوں کے لوگوں سے مذکورہ  لاپتہ افراد کے بازیابی کیلے جاری دھرنوں میں   ان خاندان کے ساتھ مل کر دھرنا جاری رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاہے کہ  ہم بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ جہاں جہاں سے فورسز ہاتھوں   کسی بھی شخص کو لاپتہ کیا جائے تو خاموش نہ رہیں۔ اس غیر قانونی غیر انسانی عمل  کے خلاف مزاحمت کریں ۔ 

 انھوں نے کہاہے کہ ہم مل کر اس ظلم کے خلاف لڑ سکتے ہیں۔ ہم سب مل کر بلوچ نسل کشی کے خاتمے کو انجام تک پہنچاکر سکتے ہیں ۔ اس لیے جدوجہد جاری رکھنا چاہئے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post