جبری لاپتہ افراد و شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5425 دن مکمل ہوگئے ، اظہار یکجہتی کرنے والوں میں سبی سے سیاسی و سماجی کارکنان مولا داد بلوچ ، نبی داد بلوچ ، عمر بلوچ و دیگر مرد اور خواتین کیمپ آہ کر اظہار یکجہتی کی ۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ شہداء کی عظیم قربانیوں کی وجہ سے اب ہر بلوچ کا بچہ بچہ جاگ چکا ہے ہر گھر میں قومی تحریک کی باتیں ہورہی ہیں اب دشمن ریاست چاہئے ایک دن میں ہزاروں بلوچ فرزندوں کی نعشیں پھینکیں ۔ لیکن بلوچ اب اپنے بقاء و سالمیت کی جنگ سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں ۔ شہداء کے قربانیوں کی وجہ سے ان کے حوصلے مزید بلند ہونگے اس میں نفرتیں اور بڑھیں گے اور یہ نفرتیں ایک دن بارود کی طرح پھٹ جائینگی ۔
انھوں نے کہاکہ فورسزاگر ہمارے ایک سیاسی کارکن کو شہید کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اور ہزاروں نوجوان دشمن کے لئے موت بن کر اٹھیں گے ۔
شہداء کے کارواں کو آگے لے جائینگے اگر تم ایک جلیل ریکی کو شہید کروگے تو قمبر چاکر ، ثناء سنگت ، غفار لانگو ، بن کر اٹھے گے ۔ بالاچ کے شہادت سے ہر گھر سے بالاچ اوٹھنگے لیکن قومی تحریک کو کوئی نہیں روک سکتا ۔
ماما قدیر نے کہا کہ اگر ہم آج بلوچستان کے حالات کا جائزہ لے تو ہمیں بلوچ قوم کی فتح دیکھائی دے رہی ہے امریکی ڈالروں کے غلام ہم سیاسی جہد کاروں کو کبھی انڈیا ، کبھی را تو کبھی براہ راست دہشت گرد قرار دیکر قتل عام کرتی ہے عالمی دنیا کو باور کرانے کے لئے اس قتل عام کو بھارتی ایجنڈا قرار دیتی ہے جو نا صرف غلط ہے بلکے اقوام متحدہ کو دعوت دیتی ہے ہے کے وہ آہ کر خود فیکٹ فائنڈنگ کرئے آیا یہ لوگ دہشت گرد ہے یا سالوں سے جبری لاپتہ افراد ہے ۔
انھوں نے کہاکہ اپنے حق اپنے بقاء کی خاطر لڑنا دہشت گردی نہیں ہے بلکے دنیا کے عظیم ترین اعزازات میں سے ایک ہے ، صوبائی حکومت بلوچ سادہ لوح عوام کو ایک دفعہ پھر بے وقوف بنانے کے لئے میدان میں اتر گئی ہے جس قوم کے نام پہ وزیر اعلیٰ بنتے ہیں آج اسی قوم کے خلاف عملی میدان میں آنے کی باتیں کررہی ہیں ہمیں خدشہ ہے کے موجودہ حکومت اور خفیہ ادارے ایک دفعہ پھر تیزی سے بلوچ نوجوانوں ، بزرگ و خواتین کے جبری لاپتہ کرنے و مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں ۔