بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم احتجاجی کیمپ کو 5394 دن مکمل

 


کوئٹہ بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم احتجاجی کیمپ کو 5394 دن ہو کے.

اظہار یکجہتی کرنے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر شمس جلالزئی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔

 اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ بلوچ عوام ساتھ پاکستی فوج خفیہ اداروں کی اس وحشیانہ سلوک نسل کشی کا زمّہ صرف فوج ایپ سی خفیہ ادارے سی ٹی ڈی ہی ہیں ، مرکزی کھٹ پتھلی بلوچستان حکومتیں پاکستان کا بے حس سول سوسائٹی متعلق  ذرائع ابلاغ، اعلی عدلیہ مذہبی حلقے بھی بلوچ نسل کشی کے جرم میں فوج سی ٹی ڈی اور خفیہ ایجنسیز کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔  کیونکہ آئین قانون کا فوج کے ما تحت ہیں 

 دراصل بات یہ ہے کہ بلوچوں کا قاتل دشمن صرف پا کستان  اس کے ذیلی ادارے ہی نہیں بلکہ ریاست کے تمام ادارے ہیں ۔ بلوچ نسل کشی پر اقوام متحدہ کی خاموشی کا جہاں تک تعلق ہے۔  تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ عملاً ویٹو پاور کے حامل ان پانچ طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہے جو سکیورٹی کو نسل کے مستقبل ممبرہیں ۔  وہ ان کی منشا مفاد کے برخلاف کوئی اقدام نہیں اُٹھا سکتا ۔ جمہوریت آزادی سکیولرازم اور انسانیت کے چیمپیئن یہ ریاستیں اپنے ریاستی مفادات کے اسیر ہیں ۔ جہاں ان کے اپنے مفادات پر ضرب پڑتی ہے تو وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اُنہیں نظرآتی ہیں۔

انھوں نے کہاکہ بلوچ نسل کشی جبری گمشدگیاں مسخ شدہ نعشیں اور فوجی آپریشن کے باعث گھروں سے جبری بیدخلیوں جیسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر جمہوریت انسانیت کے یہ چیمپیئن ممالک اس لیے خاموش ہیں کہ پاکستان ان کا پرانا آلہ کار ہے ۔ جیسے وہ اپنے سامراجی مقاصد کے لیے شاید کچھ وقت مزید زندہ رکھنا چاہتے ہیں ، بے شک بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین عالمی ضمیر کو جگانے اقوام متحدہ یورپی یونین اور اپنے ہمسایہ ممالک سمیت عالمی اداروں کی عمایت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرینگے ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاست کے لیے قانون پالیسیاں حکومت بناتی ہے جبکہ فوج اور دیگر ادارے ان قوانین پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہوتے ہیں اسی طرح کسی بھی معاشرے میں سول سوساہٹی ذراہع ابلاغ کا ایک اہم کردار ہوتاہے ، حکومت پاکستان فوج اور خفیہ اداروں کی بلوچ نسل کشی پالیسیوں کی پردہ پوشی اور اُن کے جراہم سے چشم پوشی کر کے یہ ادارے اُن سے تعاون کرتے کرتے ہیں ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post