کوئٹہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ترجمان کے مطابق اپتہ افراد کے اہلخانہ نے اپنے پیاروں کی کیمپ آکر کوائف جمع کرددیئے ہیں۔ غلام حضرت سیانی بلوچ ولد خان محمد کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ انھیں یکم اکتوبر 2018 میں فٹبال گرونڈ کلی ڈنو دالبندین سے فورسز خفیہ اداروں نے حراست میں لیکر جبری لاپتہ کردیا ، عبدالستار محمد شہی ولد جان محمد کے خاندان کے مطابق انھیں 17 جولائی 2012 میں سریاب روڑ کوئٹہ لاپتہ کیاگیا ، اس طرح عبدالغفور رند کے لواحقین نے کہاکہ 30 فروری 2015 میں جیل روڑ مچھ سے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقلکردیا جس کے بعد وہ لاپتہ ہے ،عبدالطیف جتوئی ولد عبدالحئی کے اہلخانہ کے مطابق انھین پاکستانی فورسز نے 4 نومبر 2017 کو بولان روڑ ڈھاڈر سے اغوا کرلیا جو تاحال لاپتہ ہے ۔ علاوہ ازیں عبداللہ ولد لعل محمد کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ عبداللہ کو یکم فروری 2018 کو فٹبال گرونڈ کلی ڈنو دالبندین سے فورسز نے غیر قانونی حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا ،جس کے بعد وہ لاپتہ ہے انھیں کسی عدالت میں پیش کیاگیا نہی لواحقین کو معلومات دیئے گئے ہیں۔
دریں اثناء علی احمد ولد نوراحمد کی جبری گمشدگی کے حوالے تفصیلات انکےاہلخانہ نے وی بی ایم پی کو فراہم کرتے ہوئے کہاکہ وہ ایک پولیس اہلکار ہے،جو IG پولیس بلوچستان کےساتھ ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔ 26 جولائی 2021 کو ڈیوٹی ختم کر کےگھر آرہاتھا اور راستے میں اپنے دوست کے ساتھ بی بی زیارت کے قریب ہوٹل پر چائے پینے کے لیے گئے تو وہاں سے فورسز نے انہیں غیر قانونی حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا اور انہیں معلومات بھی فراہم نہیں کیے جار ہے ہیں۔ جسکی وجہ سے انکا خاندان شدید زہنی اذیت میں مبتلا ہے۔
اس موقع پر ماما قدیر نے انہیں یقین دھانی کرائی ہے کہ علی احمد کے کیس کو تنظیمی سطح پر لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائی گئی کمیشن اور حکومت کو فراہم کرنے کے ساتھ انکی باحفاظت بازیابی کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائی جائے گی۔