پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ نسل کشی، جبری گمشدگیوں اور ماروائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کا نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ آج 37 ویں روز بھی جاری رہا۔
کیمپ میں بلوچستان سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد، ماروائے عدالت قتل بالاچ بلوچ کی لواحقین سمیت خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان ، کشمیر سے لاپتہ افراد کی لواحقین بھی شریک ہیں۔
پیر کے روز بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان فرح عظیم نے فوجی اشارہ پر آکر لواحقین سے مزاکرات کرنے کے بہانے ورغلانے کی ناکام کوشش کی ۔ تو اس موقع پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے انھیں یاد دلائی کہ کمیشن اور کمیٹاں بنائی گئی ہیں لیکن سب بے اختیار ہیں۔ ہم مزاکرات چاہتے ہیں لیکن یہاں مزاکرات کرنے والے خود بے اختیار ہیں۔ اگر کسی کے پاس اختیار ہے، ان ماؤں کے بچوں کو رہا کرسکتے ہیں تو کریں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہاکہ ہمارے لوگوں کو مار کر ہم سے کہتے ہیں غصہ میں بات نہ کریں۔
اس موقع پر فرخ عظیم نے کہاکہ گلزار شمبے کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے تو ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہاکہ گلزار جانیں اور آپ یہاں لوگ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے آئے ہیں ان سے بات کریں ۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہاکہ مزاکرات کے نام پر احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں لواحقین آئے ہیں مزید لوگ آرہے ہیں ہم یہاں بیٹھے ہیں جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔
انہوں نے کہاکہ بالاچ کی قتل پر عدلیہ کو ایکشن لینے کی ضرورت تھی ، زیر حراست شخص کو قتل کیا گیا عدلیہ خاموش رہا۔
انہوں نے کہاکہ حکومتی سنجیدگی دیکھیں لیں ایک طرف مزاکرات کی بات کرتے ہیں دوسری طرف حکومتی وزرا ہمارے خلاف ایک فریق بن کر پریس کانفرنس کرتے ہیں، جبکہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے روزانہ کی بنیاد پر جبری گمشدگیوں کی لسٹ میں دس دس لوگوں کا اضافہ ہورہا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں دلاسہ کی ضرورت نہیں ، ہمارے لوگ ایجنسیوں کے پاس ہیں انہیں بازیاب کرکے یہ سلسلہ روکا جائے ۔ انھوں نے کہاکہ سنگدلی دیکھیے ہم لاپتہ افراد کی بازیابی چاہتے ہیں اور یہ مزید لوگوں کو لاپتہ کر رہے ہیں ایک ہفتے دوران پندرہ کے قریب بلوچ معصوم لوگ لاپتہ کیے گئے ہیں۔