بلوچستان نیشنل پارٹی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جارہی ہیں، بلوچستان میں مصنوعی قیادت لانے کی کوشش کی جارہی ہے بلوچستان کے حقیقی سیاسی جمہوری قوتوں کو دیوار سے لگانے کا فیصلہ غلط ہے،سریاب میں ریاستی اداروں کے اہلکار گھر گھر دستک دے کر عوام کو سے پوچھ رہے ہیں کہ کس پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں۔
ان خیالات کااظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پربی این پی کے سینئر نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ، پرنس موسیٰ جان احمد زئی، ملک نصیر احمد شاہوانی، اختر حسین لانگو، میر مقبول احمد لہڑی، احمد نواز بلوچ، حاجی باسط لہڑی ،غلام نبی مری ودیگر بھی موجود تھے ۔
سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ جب ملک میں انتخابات کا اعلان ہوا تو ان کا پہلا مرحلہ کاغذات نامزدگی جمع کرنے کا تھا ہمارے صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے تاہم کچھ قوتوں کی خواہش ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کو اس مرتبہ انتخابات کے مرحلہ سے باہر کیا جائے کیونکہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے فلور پر بلوچستان کے حقوق لاپتہ افراد کی بازیابی، سائل و وسائل سمیت تمام ایشوز پر ہم نے بھر پور آواز اٹھائی جو ہمارے اداروں کو کسی صورت قبول نہیں اس لیے اس مرتبہ پہلے سے یہ طے کیا گیا تھا کہ بی این پی کے امیدواروں کے کاغذات کو مسترد کرنا ہے اس لیے انہوں نے اپنا کھیل کھیلا بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز میرے صدارت میں منعقد ہوا جس میں تمام صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی پہلے مرحلہ میں الیکشن ٹریبونل جائے گی اگر وہاں ہماری بات نہیں سنی گئی ہمیں انصاف نہیں ملا تو ہم سپریم کورٹ جائیں گے اگر وہاں بھی ہماری بات نہیں سنی گئی تو ہم عوام کے عدالت میں جائیں گے پھر ہم سے کوئی گلہ نہ کریں ۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی خفیہ ادارے نہیں چاہتے کہ بی این پی کے امیدوار قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں جاکر لاپتہ افراد کا مسئلہ اٹھائیں اس لیے ان کی کوشش رہی کہ ہمیں الیکشن کے کھیل سے باہر کیا جائے لیکن ہم عوام کے عدالت ضرور جائیں گے لیکن تمام جمہوری پراسس کو مکمل کریں گے تاکہ کل کوئی یہ نہ کہیں کہ ہم نے الیکشن پراسس کو مکمل نہیں کیا اگر میرا اقامہ جس کے بنیاد پر میرے صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے کاغذات مسترد ہوئے ہیں 2018کے انتخابات میں بھی اسی اقامہ کے تحت حصہ لیا اور پانچ سال تک قومی اسمبلی کا ممبر رہا ۔
انہوں نے کہا کہ اقامہ کی بہت لمبی فہرست ہے آہستہ آہستہ وہ فہرست آرہی ہے انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں سے سریاب میں سادہ وردی میں ملبوس افراد باقاعدہ گھروں پر دستک دے کر ان سے سروے کے نام پر معلومات اکھٹا کیے جارہے ہیں کہ آپ ووٹ کس کو دے رہے ہیں اگر وہ ہمارے پارٹی کا نام لیتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں شخصیت کو ووٹ دیدیں اس نے ویسے ہی کامیاب ہونا ہے اس طرح کے ہتھکنڈوں سے بی این پی مرعوب نہیں ہوگی بلکہ ہم تمام جمہوری پراسس مکمل کریں گے ان کیلئے میدان خالی نہیں چھوڑیں گے ۔
ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نگران حکومت پہاڑوں پر جانے والوں سے بات کرتے ہیں پہلے تو یہ دیکھا جائے کہ وہ کیوں پہاڑوں پر گئے نواب اکبر خان بگٹی 85سال کی عمر میں جب ان کے گھر پر حملہ کیا گیا تو پھر وہ مجبور ہوکر پہاڑوں کا رخ کیا ہمیں آج بھی مشرف کی وہ دھمکی یاد ہے کہ ہم ایسی جگہ ہٹ کریں گے کہ انہیں پتا بھی نہیں چلے گا ہمیں تو پتا چل گیا لیکن حکمرانوں کو ابھی تک ہوش نہیں کہ انہوں نے اس بیان کے بعد کتنا نقصان اٹھایا نگران حکومت کا کام 90دن کے اندر صاف شفاف انتخابات کرانے کے بعد گھر جانا تھا لیکن یہاں تین مہینے تک وزارتوں کے مزے اٹھا کر اپنے اپنے حلقوں میں اپنے پسند کے آروز تعینات کرکے الیکشن شیڈول سے ایک دن قبل مستعفی ہورکر دوبارہ امیدوار بن کر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں بلوچستان میں مصنوعی قیادت لانے کی کوشش کی جارہی ہے بلوچستان کے حقیقی سیاسی جمہوری قوتوں کو دیورا سے لگانے کا فیصلہ غلط ہے ان کا خیال ہے کہ ہم خاموش ہوجائیں گے یہ ان کی خام خیالی ہے جنرل فیض کے بقایہ جات کو دوبارہ اقتدار میں لانے کا خواب پورا نہیں ہوگا بڑی سیاسی جماعتوں کی کبھی بھی بلوچستان میں ترجیحات میں شامل نہیں رہا کیونکہ ہمارے بلوچستان کے تمام سیٹوں سے لاہور کے سیٹیں زیادہ ہیں ۔
ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے نواز شریف کو خط ڈاک خانہ کے ذریعے بھیجا تھا لیکن وہ اب رائیونڈ آچکا ہے میرا خط گھو م رہا ہے یہ تمام کھیل مخصوص شہزادوں کو اسمبلیوں میں لارہے ہیں تاکہ وہ خاموشی سے اقتدار کے مزے اٹھائیں اور بلوچستان کے حقیقی مسائل پر خاموش رہے ۔