شال بلوچ نسل کشی، جبری گمشدگیوں اور ماروائے عدالت قتل کے خلاف شال شاہوانی اسٹیڈیم میں قومی جلسہ عام جاری ہے۔ جس میں ہزاروں افراد شریک ہیں، اسٹیڈیم بھرنے
سے لوگوں کی بڑی تعداد باہر موجود ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام شال میں منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریاست کو اس کی زبان میں سمجھانا بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ گونگے اور بہرے ہیں اور ہمارے پاس اپنی زمین پر مر مٹنے والے ہتھیار ہیں۔ ان کو یہ نہیں معلوم کو یہ جن سامراجیوں کے تلوے چاٹتے ہیں بلوچ نے ان کو بھی خاک چٹوائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ریاست کے پاس ایک طاقت تھی کہ کس طرح بلوچوں کو ڈرایا جائے جس کیلئے اس نے اپنی پوری مشینری استعمال کی، ریاست نے چن چن کر انہیں اٹھایا، چن چن کر ان کی لاشیں پھینکی گئیں مگر وہ ڈرا نہ سکے اس قوم کو ، اس خوف کو ہم نے توڑ دیا ہے۔ مجھے آج اس جلسے میں انقلاب کی بو آرہی ہے وہ انقلاب جس کا خواب ہمارے شہیدوں نے دیکھا۔ جس کے لیے یہ مائیں 15 سال سے تڑپ رہی ہیں، ان کی آنکھوں کے آنسوں خشک ہوچکے ہیں۔ مائیں اپنے بیٹوں کی پیدائش پر روتی ہیں تڑپتی ہیں۔ پاکستانی
ریاست کے خونخواروں نے بلوچ نوجوانوں کا خون پیا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ تاریخ میں یہ لکھا جائے گا کہ بلوچوں نے ریاستی طاقت کو شکست دی۔ یہ ہمارے متعدد شہدا کا خون اور قربانیوں کا ثمر ہے کہ ہم آج پاکستانی ریاست کے ظلم و جبر کیخلاف کھڑے ہیں۔ نام نہاد قوم پرست جو لاپتا افراد پر سیاست کرتے ہیں وہ پس پردہ بلوچوں کے خون اور ان کی عزت کا سودا کرتے ہیں۔ پاکستان کے فوجیوں کو یہ تربیت دی گئی ہے کہ بلوچوں پر کس طرح ظلم کرنا ہے۔ تربت سے نکلنے والا لانگ مارچ جو بالاچ کیلئے نکلا تھا وہ تمام مظلوم بلوچوں کی آواز بن گیا، ہم میڑھ لیکر آئے ہیں آپ کے پاس کہ اپنے معصوم نوجوانوں کیلئے ایک ہوجاﺅ۔ جب ہم اسلام آباد کیلئے نکلے تو ہمیں پتا تھا کہ ہماری بات نہیں سنی جائیگی، ہم نے اس ریاست کو پوری دنیا کے سامنے ایکسپوز کردیا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ بلوچ جذباتی نہیں نظریاتی ہے، یہ ہم پر کبھی رحم نہیں کریں گے، میں رہوں یا نہ رہوں یہ ہماری تحریک آپ کیلئے امانت ہے۔ یہ روایتی جلسہ گاہ نہیں یہ کوئی روایتی جلسہ نہیں یہ تحریک دنیا بھر کے بلوچوں کی آواز ہے۔ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں، فوجی آپریشن، قتل و غارت اور بلوچوں کو مہاجرین کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کیخلاف ہے۔ یہ دھرتی میر محراب کی دھرتی ہے، یہ عبدالعزیز کرد کی ہے، یہ دھرتی نواب خیر بخش، بالاچ، بانو
کریمہ کی دھرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آﺅ دیکھو آج اس عوامی طاقت کو دیکھو، ان اندھی عدالتوں سے ہمیں دبانے کی کوشش کی ریاست کی تمام پالیسیوں کیخلاف یکجا ہوجاﺅ، قومی زندگی کیلئے اپنی زندگی کو وقف کردو، اور وہ لوگ جنہوں بلوچوں کو تفریق کرنے کی کوشش کی ہم ان کو یہ پیغام دیں گے کہ آج بلوچ متحد ہے۔ بلوچ عوام کو اب اپنی صف بندی کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ یہ 1948ء نہیں یہ 2024ء ہے اور یہ بنگال نہیں یہ بلوچستان ہے۔ یہ تحریک بلوچستان کی بقا کی تحریک ہے اور یہ تحریک اسی طرح چلتی رہے گی
جلسہ عام میں کوئٹہ کے علاوہ مکران، جھالاون، سراوان، کراچی اور کوہ سیلیمان سے خواتین، بچے اور جبری افراد لواحقین کی بڑی تعداد شریک ہیں۔
جلسہ عام سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری افرادکے لواحقین اسٹیج پر موجود ہیں اور اپنے پیاروں کی گمشدگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے انکی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جبکہ اس دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف بلوچستان میں اقوام متحدہ فیکٹ فائنڈ مشن کے لئے لوگوں نے پیٹیشن پر دستخط کیے۔
جلسہ عام سے مقررین کا خطاب کا سلسلہ جاری ہے۔
بلوچ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ماما قدیر بلوچ، صبغت اللہ بلوچ ، سائرہ بلوچ، اور دیگر مقررین نے اپنے خطاب میں کہاکہ آج کا یہ عوامی سمندر ریاستی جبر کے خلاف بلوچ کا ریفرنڈم ہے ۔ بلوچ یہ فیصلہ کرچکا ہے کہ نسل کشی بند کرکے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ روکا جائے۔
انہوں نے کہاکہ جب ہم اسلام آباد گئے تو انہوں نے کہاکہ بلوچیوں نکل جاؤ ہم نکل آئے اور یہاں سے پیغام دے رہے کہ
ہم بلوچستان لوٹنے کی اجازت کسی نہیں دینگے۔
اس دوران اسٹیج پر بلوچ رہنماؤں نے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کو بلوچی چادر پیش کیے۔
سبغت اللہ شاہ جی بلوچ نے اسلام آباد میں بلوچ عورتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں شرکا کو آگاہ کیا۔ انہوں نے اسلام آباد میں پیش آنے والے سنگین چیلنجز اور اس ریاست کی بلوچ نسل کُشی کے پالیسیوں کے بارے میں بلوچ عوام کو آگاہ کیا۔
انہوں نے کہاکہ ہم کبھی نہیں بھولیں گے کہ اسلام آباد نے ہماری ماؤں اور بہنوں کے ساتھ پوری دنیا کے سامنے کس طرح
برتاؤ کیا۔
جلسہ عام شرکاء بلوچ بلوچ نسل کشی اور ریاستی جبر کے خلاف نعرہ بازی کررہے ہیں اور بلوچ قومی کلوگار استاد میر احمد بلوچ اور دیگر کے آواز میں ترانے سنائے جارہے ہیں ۔