پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام بلوچ نسل کشی و جبری گمشدگیوں کیخلاف جاری احتجاجی دھرناکیمپ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ پرامن دھرنے کو مسلسل ہراساں کیا جا رہاہے ۔ 7 دن میں مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو مقدمہ بلوچ عوام کی عدالت میں لے کر جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست ہی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گرفتار بلوچ طلبا کے حوالے سے میڈیا اور عدالت میں چھوٹ بولا جاتا ہے کہ ان کو رہا کر دیا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس متعدد طلبا اب بھی گرفتار اور متعدد لاپتہ ہیں۔
ماہ رنگ نے کہاکہ پاکستان کے کسی ادارے پر اعتماد نہیں رہا۔ اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی کو بلایا جائے اور ان کے سامنے مطالبات تسلیم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے جائیں تب ہی اعتماد بحال ہو سکتا ہے ورنہ اور کوئی بات نہیں ہو گی۔ ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں، اس کے بعد ہم اپنے ردعمل میں آزاد ہوں گے۔
انھوں نے پریس کانفرنس دوران اہم انکشاف کرتے کرتے ہوئے کہا کہ ذاکر مجید کی والدہ سے جعلی اسٹام پیپر پہ سائن لیے گئے ہیں ۔ والدہ سے کہا گیا کہ اسٹام پیپر پہ سائن کر دیں آپ کے بیٹے کو واپس لے آئیں گے۔ جبکہ اسٹام پیپر پہ لکھا تھا کہ میرا بیٹا ذاکر مجید دبئی میں ہے کسی نے اس کو اغوا نہیں کیا اور یہ کام مذاکراتی کمیٹی کی سربراہی میں ہو رہا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکومت کو مزاکرات کی دعوت دے کر سات مطالبات پیش کر دیے۔
1- اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی سربراہی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لئے بلوچستان میں فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بھیجا جائے۔
2- بلوچستان میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتال ختم کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی موجودگی میں معاہدہ کیا جائے ۔
3- تمام جبراً لاپتہ بلوچوں کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے۔
4- بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل کے سرغنہ ادارے سی ٹی ڈی اور ریاستی ایجنسیوں کی سربراہی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈز کا خاتمہ کرکے باقاعدہ تحریری اعلامیہ جاری کیا جائے۔
5- جبراً لاپتہ افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا اعتراف کیا جائے۔ ـ
6 ـ وزارت داخلہ جبراً لاپتہ افراد کے قتل کے حوالے سے اعترافی خط جاری کرکے پریس کانفرنس کرے جس میں تمام متاثرین کے نام ہوں۔ ـ
7- پرامن مظاہرین کے خلاف درج تمام جھوٹے ایف آئی آر واپس لئے جائیں ـ۔