کوئٹہ اسلام آباد لانگ مارچ کے شرکاء پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ، اس سردی کے موسم میں ان پر واٹر کینن کا استعمال کیاگیا، مارچ میں شامل لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت دیگر شرکاء کو گرفتار کیاگیا اور لانگ مارچ کے شرکاء اور انکے مطالبات کے حق میں نکل کر احتجاج کرنے والے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کیاگیا اور اب انکا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلے لگائے گئے کیمپ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔
انھوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ جیسا کہ آپ لوگوں کے علم میں ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، لاپتہ افراد کی جعلی مقابلوں میں قتل اور جبری گمشدہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف تربت سے ایک پرامن لانگ مارچ شروع ہوا جس میں لاپتہ افراد کے لواحقین کثیر تعداد میں شامل ہے لانگ مارچ کے شرکاء بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ملکی اداروں کے ماورائے آئین اقدامات کے خلاف اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پہنچھے ہم یہ امید کررہے تھے کہ اسلام آباد سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی لانگ مارچ کے شرکاء کو ویلکم کیاجائے گا بلوچستان سے جانے والے لاپتہ افراد کے لواحقین کی فریاد کو سنا جائے گا انکی داد رسی کی جائے گی انکے جبری گمشدہ پیاروں کی بازیابی کو یقینی بنانے کے ساتھ فیک انکاونٹرز میں پہلے سے لاپتہ کیے گیے افراد کی قتل اور جبری گمشدیوں کے روک تھام کے حوالے سے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھایا جائے گا ۔مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک کے حکمرانوں نے ایک دفعہ پھر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان کے پرامن آواز کو طاقت اور غلط بیانے کے زریعے خاموش کرانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ لانگ مارچ کے شرکاء پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ، اس سردی کے موسم میں ان پر واٹر کینن کا استعمال کیاگیا، مارچ میں شامل لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت دیگر شرکاء کو گرفتار کیاگیا اور لانگ مارچ کے شرکاء اور انکے مطالبات کے حق میں نکل کر احتجاج کرنے والے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کیاگیا اور اب انکا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے اور حکومت مسلے کو حل کرانے کے بجائے لانگ مارچ میں شامل لاپتہ افراد کے لواحقین اور ملکی اداروں کے ماورائے آئین اقدامات کے خلاف اٹھنے والے توانا آوازوں کے خلاف غلط نیریٹو کے زریعے انہیں بدنام کرنے کی ناکام کوشش میں لگا ہوا ہے جو یقینا ایک غیر جمہوری عمل ہے اور پرامن آوازوں پر قدغن لگانے کے مترادف ہے جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
چیئرمین نے کہاکہ ہم ریاست کو کہنا چاہتے ہیں کہ آپ 75 سالوں سے بلوچستان کے مسئلے کو سیکورٹی کا مسئلہ قرار دے کر مسلسل طاقت کا استعمال کررہے ہو آپ نے ان 75 سالوں میں بلوچ قوم کے حقوق کے حوالے سے اٹھنے والے طاقتور آوازوں پر ہر قسم کے الزامات لگائے اپنی کاروائی کو جائز قرار دینے کے لیے انہیں ملک دشمن قرار دیا، انہیں انڈیا اور اسرائیل کے ایجینٹ کہا انہیں پابند سلاسل کیا، اس دوران ہزاروں بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی اور ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں ہے کہ بلوچ قوم کی حق کے لیے اٹھنے والے آوازوں کو خاموش کراسکا یا آپ اپنے عزائم میں کامیاب ہوئے۔
یقینا اس کا جواب نفی میں ہے بلکہ ریاست اور ریاستی اداروں کے اس رویے اور انسانی حقوق کی اس خراب صورتحال کی بنا پر ایک طرف بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں بسنے والے لوگوں میں بےچینی بڑھتی جارہی ہے تو دوسری طرف دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص متاثر ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پوری دنیا میں بات کی جارہی ہےاور ان ظلم و زیادتیوں، ماورائے آئین اقدامات اور انسانیت سوز مظالم کے خلاف بلوچ سمیت پاکستان میں بسنے والے دیگر مظلوم و محکوم اقوام سراپا احتجاج ہے جسکی واضع مثال حالیہ بلوچوں کی لانگ مارچ ہے جو آپ کے ماورائے آئین اقدامات کے خلاف تربت سے شروع ہوئی اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا اسلام پہنچا ہے یہ مارچ جس جس علاقے سے گزرا ہے وہاں کے خواتین و بچوں سمیت دیگر بسنے والے لوگ کثیر تعداد میں نکل کر ریاستی اداروں کے ماورائے آئین اقدامات اور انسانیت سوز مظالم کے خلاف اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کراکے اپنے غم و غصہ اور نفرت کا اظہار کیا اور اب تک کررہے ہیں اور ریاست کو یہ پیغام دے رہے ہیں ریاست کی طرف سے مزید بلوچ قوم کی نسل کشی برداشت نہیں کی جائے گی۔
نصراللہ بلوچ نے کہاکہ بلوچ مسنگ پرسنز کے پیلٹ فارم سے ہم 15 سالوں سے ملکی قوانین کےتحت مسلسل اور ثابت قدمی سے پرامن جد و جہد کرتے آرہے ہیں ان 15 سالوں میں ہم نے مختلف حکومتوں سمیت انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں کے سامنے پیش ہوتے آرہےہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے۔ اسے سیاسی طریقے سے حل کیا جائے اور بلوچستان میں طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے، جن پر الزام ہے انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، جو لاپتہ افراد اس دنیا میں نہیں ہے انکے خاندان کو معلومات فراہم کرکے انہیں زندگی بھر کی تزبزب سے نجات دلائی جائے، جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں پہلے سے لاپتہ افراد کے قتل کے سلسلے کو بند کیا جائے اور جو ملکی ادارے ان ماورائے آئین اقدامات میں ملوث ہے انہیں ملکی قوانین کے تحت انصاف کے کہٹرے میں لایا جائے انکے اختیارات کو محدود اور انہیں پابند بنایا جائے کہ وہ شہریوں کے آئین میں دیئے گئے حقوق کا احترام کرتے ہوئے انکے تحفظ کو یقینی بنائے اور جو بھی اقدامات اٹھائے وہ ملکی قوانین کے تحت اٹھائے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی سلامتی آئین کی بلادستی میں ہے اور یہ مطالبات اہل بلوچستان کے ہیں اور یہی مطالبات بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پیلٹ فارم سے کیے جانے والے لانگ مارچ کے شرکاء کے ہیں ۔
انھوں نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بی وائی سی کے تمام مطالبات آئینی ہیں اسلیے ہم ریاست اور ریاستی اداروں کے سربراہوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نشنل پریس کلب کے سامنے دھرنے پر بیٹھے ہوئے لانگ مارچ کے شرکاء کا میڈیا ٹرائل بند کرے اور انکے خلاف منفی پروپیگنڈہ میں اپنا طاقت صرف نہ کرے۔ بلکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی سے بامقصد مزاکرات کا آغاز کرے اور انکے مطالبات کو پورا کرنے کے حوالے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھائے۔
پریس کانفرنس دوران وی بی ایم کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ اور دیگر رہنما اور لاپتہ افراد کے لواحقین بھی موجود تھے۔