بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5284 دن ہوگئے



بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5284 دن ہوگئے۔

 اظہار یکجہتی کرنے والوں میں پنجگور نے سیاسی سماجی کارکن شبیر احمد بلوچ داد محمد بلوچ زبیر احمد بلوچ اور دیگر ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے اظہار یکجہتی کی۔


اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے جاری بیان میں کہا کہ تنظیم کی طرف سے بین الاقوامی توجہ اس جانب مبذول کروانے کے لئے احتجاج کے تمام ذرائع اپناتے ہوئے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے پریس کانفرنس کئے سمینارز کا انعقاد کیا اور اس گمبھیر مسئلے پر بذریعہ بیانات اور آرٹیکلز معلومات پھیلائے۔ 


ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا مسلہ انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرچکا ہے اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری و ساری ہے ہزاروں بلوچ ابھی تک قابض کے عقوبت خانوں میں قید ہیں اب تک جبری گمشدہ افراد کی بازیابی میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔


 انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی قبضہ گیر کی ایماں پر جبری گمشدہ افراد کے تسلی دے رہی یا پر سپریم کورٹ خد ان بااثر اداروں کے سامنے بےبس ہے دونوں سورتوں میں جبری لاپتہ افراد کے مسلے میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ سپریم کورٹ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی میں وارننگ کی حد تک محدود ہے حالانکہ کورٹ نے سی ٹی ڈی ایف سی کو مدت دی تھی کہ وہ اتنے دنوں میں جبری لاپتہ افراد کو پیش کرے لیکن خفیہ ایجنسیاں اور ایف سی کورٹ کی وارننگ کی کوئی پرواہ کئے بغیر مزید افراد کو اغوا کرکے مسخ شدہ لاشیں پھینکتے رہے۔

 بلوچستان میں بھی خفیہ اداروں کی جانب سے ظلم کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اس بارے میں پولیس نے ان گمشدگیوں میں خفیہ ایجنسیوں اور ایف سی کے ملوث ہونے کے ثبوت کی شکل میں عدالت میں پیش کی ہیں لیکن قابض کی فوج اور ایجنسیوں نے کسی چیز کو خاطر میں لائے بغیر بلوچستان میں ننگی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ پاکستان کی مرکزی حکومت بھی مسلے پر بار بار اپنے بیانات تبدیل کرتی چلی آ رہی ہے۔ پاکستانی ایجنسیوں کی تحویل میں 67000 بلوچ ہیں موجودہ حکومت ان 67000 کو صرف 50افراد کی گمشدگی ظاہر کرتی ہے اور ان افراد کے بارے میں بھی یہ کہتی ہے کہ وہ پاکستانی فورسز کے پاس نہیں ہیں۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post