بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5257 دن ہوگئے۔
آج اظہار یکجہتی کرنے والوں میں مستونگ سے سیاسی اور سماجی کارکنان حفیظ بلوچ نورشاہ بلوچ کمال بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ہمیشہ سے سفاک حالات اور ظلم قہر کا گڑ بن چکا ہے ،یہاں عقوبت خانوں اور زندانوں میں آئے روز نت نئی سزائیں ایجاد کی گئی ہیں۔ ظلم ستم آسان ہوچکا ہے کہ اب سرعام ظلم ہوتا ہے عدل و انصاف کے قصے اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں ہر کوئی اپنے ذمہداری سے غافل دکھائی دیتا نظر آ رہا ہے ۔ آپ یقینا اس وہم و گمان میں ہونگے کہ میرا اشارہ کس طرف ہے، لیکن آپ اپنے ذہانت نظروں کو ارد گرد دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ ہم پر تو ظلم ناانصافیاں تو حد سے تجاوز کر گئی ہیں، لیکن اسکا ذمہدار کون اور کیونکر ہے زرا آپ یہ غور فرمائیں کہ بلوچستان میں جتنے بھی فوجی آپریشن ہوئے جس ک سلسلہ ہنوز بھی جاری ہے۔ اس خون خرابے اور قتل غارت گری میں ریاست بھی برابر کا شریک ہے۔
انھوں نے کہا کہ بابو نوراز خان سے لیکر غلام محمد اور انکی ساتھیوں کی شہادت تک ہمیں ہر سمت سے میڈیا اپنی زمہ داریوں سے روگردانی کرتا نظر آیا، یہاں سورج ہر روز کسی نہ کسی دل گزار خبر کے ساتھ طلوع ہوا لیکن ہمیں وہ سچائی کے علمبردار کبھی بھی کسی واقعے کو کوریج کرتے نظر آئے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچوں کے ان شک و شبہات میں اضافہ کیا کہ بلوچستان کے ظلم جبر پر آج تک ریاستی میڈیا نے کیوں کان تک نہ دھرا زرینہ مری سمیت کئی بلوچ نوجوان خواتین جبری اغوا کئے گئے ظلم بربریت کا بازار سجایا گیا ۔ بلوچوں کی خون کو پانی کہ طرح بہا کر بےقدر کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ہر جگہ دشت بیابان ریگستان و کہساروں میں ہمیں دہشت خوف کے بادل منڈلاتے نظر آئے،لوگ بےبس ہوکر انصاف کے لئے بلبلاتے رہے یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ریاستی میڈیا نے بلوچوں پر قدغن لگا کر انہیں ان تمام تر واقعات کا ذمہد ار ٹھہرایا یہ سب اب ہم پر واضع ہو چکی ہے کہ پچھلے 72 سالوں سے اس بلوچستان پر فوجی آپریشن کو مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی میڈیا کا واربھی بلوچوں پر کثرت سے جاری ہے۔۔۔