اسلام آباد: مزید 34 بلوچ طلباء رہا ہوگئے ،بولان سے 9 سال جبکہ تربت کے رہائشی 13 ماہ بعد بازیاب ہوگئے ہیں



اسلام آباد گذشتہ دنوں جبری گمشدگیوں کے خلاف لانگ مارچ کے دوران گرفتار ہونے والے مزید 34 طلبا جیل سے رہا ہوکر احتجاجی کیمپ پہنچ گئے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق ایک طویل جدوجہد کے بعد بلوچ مظاہرین کو رہا کر دیا گیا ہے۔

طلبا کے وکیل حبیب بلوچ کے مطابق اڈیالہ جیل میں موجود آخری 34 ساتھی بھی رہا ہو گئے۔ لیگل ٹیم کی فہرست کے مطابق کُل 282 افراد رہا ہو چکے ہیں۔

آپ جانتے ہیں  ان گرفتار شدگان میں مارچ کے استقبال کے لیے آۓ ہوۓ پشتون اور دیگر اقوام کے کارکن بھی شامل تھے۔ مارچ کے شرکاء کو سواری فراہم کرنے کے جرم میں لورالائی بلوچستان اور مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے دو اوبر ڈرائیورز کو بھی گرفتار کر کے اڈیالہ اور اٹک جیل میں قید کیا گیا تھا۔

شال  سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں 25 جولائی 2015 سے لاپتہ محمد جان کرد بازیاب ہوگئے۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئیرمین نصراللہ بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ X پر خبر دیتے ہوئے کہا ہے بلوچستان کوئٹہ کے علاقے برمہ ہوٹل سے جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے جان محمد کرد 9 سال کے بعد بازیاب ہوگئے ہیں ۔

علاوہ ازیں ضلع کیچ کے تحصیل تربت سے اطلاعات کے مطابق پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں گرفتاری بعد ازاں جبری گمشدگی کا شکار فاروق بلوچ ولد علی احمد آج بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ  چکا ہے-

فاروق کا تعلق تربت کے علاقے آپسر سے ہے جسے 13 ماہ قبل جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا-

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے گا اور انکے غمزدہ خاندانوں کو زندگی بھر کی اذیت سے نجات دلائی جائے گی.

Post a Comment

Previous Post Next Post