تربت میں جاری دھرنے کو آج 13واں دن ہے اور ریاست ہمارے مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے مختلف حربوں کے ذریعے ہماری آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس دھرنے تک پہنچنے والی ہر سیاسی قوت کو ہراسا کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے، اسکی واضع مثال قوم پرست رہنما منظور پشتین کو دھرنے میں شرکت نہ کرنے دینا، ریاستی آمرانی پالسیوں کا تسلسل ہے۔ ان خیالات کا اظہار جاری دھرنے کے منتظمین نے پریس کانفرنس دوران کیا۔
انھوں نے کہاکہ ہم پہلے دن سے ریاست سے بلوچستان میں جاری نسل کشی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں اور یہ واضح کرتے آ رہے ہیں کہ جب تک ریاست بلوچستان میں جاری نسل کش پالیسیوں کو ترک کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائے گی، سی ٹی ڈی ، ایف سی، و ڈیتھ اسکواڈز جیسے اداروں کو اسی طرح فعال کرتے ہوئے انہیں بلوچستان بھر میں دہشت پھیلانے کا اختیار دے گی تو یہ مزاحمت جاری رہے گا۔ اب بلوچ قوم ، ریاست کی ان پالیسیوں کے خلاف کھڑا ہوچکا ہے اور وہ کسی بھی طرح نسل کشی کے اس تسلسل کو قبول نہیں کرینگے اور اپنی بقاء کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
پریس کانفرنس میں کہاکہ ہم بارہا اپنے گزارشات ریاست کے سامنے لاتے رہے ہیں ایک مرتبہ پھر دہراتے ہیں کہ بلوچستان میں اپنی متشدد پالیسیاں تبدیل کریں آج جو عوامی ردعمل انہیں کیچ میں دیکھنے کو ملا ہے، بلوچستان بھر کی آواز ہے، لوگ ظلم و جبر سے تنگ آچکے ہے، اور اگر یہ سلسلہ یونہی جاری ریا تو عنقریب یہ غصہ لاوے کی شکل میں پھٹ جائے جو ریاست کے حق میں بہتر نہیں ہوگا ۔ بلوچستان کا کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں جہاں فورسز نے ایسے مظالم کی داستانیں قائم نہ کی ہوں اور آج یہ مزاحمت انہی ظلم اور ناانصافیوں کا ردعمل ہے۔ جیسے کہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم اس دھرنے کو لانگ مارچ کی شکل میں تبدیل کرکے بلوچستان بھر کے لوگوں کی آواز بنائیں گے اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے گزر کر عوام کو اپنے ساتھ ملا کر ، مہم کو آگے بڑھاتے جائینگے۔ لاپتہ افراد اور ریاستی مظالم کے شکار بالاچ اور شعیب بلوچ کی لواحقین کے ہمراہ کل یہ لانگ مارچ کیچ سے نکل کر پنجگور کی طرف روانہ ہوگی اور اسی طرح پھر پنجگور سے خضدار اور ایسے ہی آگے بڑھتی جائے گی۔ اس سلسلے میں بلوچستان بھر کے عوام سے روڑوں پر نکلنے، اس کافلے کا حصہ بننے اور مارچ کو منظم بنانے کی اپیل کرتے ہیں کیونکہ یہ مارچ انہی کی بدولت آگے جائے گی۔
انھوں نے کہاکہ گزشتہ 13 دن تک یہاں رہنے، شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام جیسے سخت اقدامات اٹھانے کے باوجود ریاست نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں کسی بھی صورت تبدیلی نہیں لائے گی۔ ریاست کے انہی پالیسیوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ لیا گیا تھا کہ اب یہ دھرنا مارچ کی صورت بلوچستان بھر میں ریاستی ظلم کے خلاف آواز بنے گی۔ ان 13 دنوں میں کیچ بھر میں ہر طرح کے سیاسی اقدامات اٹھائے گئے اور کیچ بھر میں لوگوں کو آگاہی دی گئی کہ اب ریاست کے ظلم کو نظرانداز کرنے اور لاشیں دفنانے کے بجائے ان کے ساتھ ملکر جدوجہد کرنا چاہیے۔ مکران بھر میں لوگوں نے جس طرح سے اس تحریک کو کامیاب بنانے کی کوشش کی وہ قابل دید ہے، یہاں ہر شخص نے جس خلوص کے ساتھ اپنے لوگوں کی مدد کی، عملی جدوجہد میں حصہ کیا اور مکمل تعاون کیا خاص کر تاجر برادی ، تحسین کے لائق ہے، ریاستی بربریت کے خلاف اس تحریک کا حصہ بننے والے عوامی ہجوم اس بات کی غماز ہے کہ اب بلوچ قوم باشعور ہو چکی ہے اور وہ کسی بھی طرح مزید ریاستی ظلم پر خاموش نہیں رہے گی۔ یہ کسی ایک علاقے یا ریجن کا مسئلہ نہیں بلکہ بلوچستان کے ہر دوسرے گھر کا مسئلہ ہے اس لیے اس ناانصافی اور ظلم کے خلاف اب تمام بلوچستان کو اٹھنا ہوگا اور اس بربریت کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔ آج اگر ریاست کے ہاتھ روکے ہوئے ہیں تو وہ اسی جدوجہد کا دباؤ ہے اگر ہم خاموش رہیں گے تو مزید لاشیں آتی رہیں گی۔
پریس کانفرنس دوران انھوں نے کہاکہ لانگ مارچ صرف ایک مارچ نہیں بلکہ یہ فیصلہ کی گھڑی ہے اس پورے راہ میں جتنے علاقوں میں ہوسکے بلوچ اس فیصلہ کن گھڑی میں کھڑے رہیں، نسل کشی کی روک تھام کی لیے عوامی آواز کو اس گونج کا حصہ بننا ہوگا ، کل 12 بجے تربت سے روانگی کے بعد راہ میں تجابان، ہوشاب، بالگتر پر باری باری روکا جائے گا، جبکہ پروسوں بروز جمعرات، 7دسمبر کو دن بھر پنجگور میں ریلی، کے بعد لاپتہ افراد کے رجسٹریشن کے لیے کیمپ قائم کیا جائے گا، عوام سے گزارش ہے کہ بھر پور ساتھ دے اور اس قافلے کے حوصلے بلند کریں تاکہ جبری گمشدگی کے شکار سمیت ریاستی بربریت کے شکار تمام لوگ سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کرکے جابر سے احتساب کریں۔